غزہ پر اسرائیل بمباری، بچوں سمیت بیس افراد ہلاک
11 مئی 2021اسرائیل کے مقبوضہ مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے پاس بسے فلسطینیوں کو وہاں سے اجاڑنے کی کوششوں کے خلاف چند روز قبل جن مظاہروں اور جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا وہ پیر کو بھی دن بھر جاری رہا۔ ان جھڑپوں میں اب تک متعدد فلسطینی ہلاک اور تقریباً ایک ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔
غزہ کے علاقے میں سرگرم اسلامی گروپ حماس نے پیر کے روز مسجد اقصی کے احاطے میں موجود اسرائیلی فورسز کو وہاں سے نکلنے کو کہا تھا تاہم جب اسرائیلی فورسز نے وہاں سے ہٹنے سے منع کر دیا تو حماس نے جواباً اسرائیل پر کئی راکٹ داغے۔ حالانکہ اسرائیلی دفاعی نظام نے بیشتر راکٹوں کو فضا میں ہی تباہ کر دیا تاہم اسرائیل نے جواباً غزہ پر فضائی حملے کیے جس میں اب تک بیس افراد کے ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔
فلسطینی حکام کے مطابق اسرائیل کے حملوں میں نو بچوں سمیت بیس افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ دیگر 56 افراد زخمی ہو ئے ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کی جوابی کارروائی میں آٹھ شدت پسند ہلاک ہوئے۔
اسرائیلی فورسز فلسطینیوں کے خلاف اسٹین گرینیڈ اور ربر کی گولیاں استعمال کرتے رہے ہیں جس میں پیر کے روز مزید تین سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے اور اس طرح زخمیوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہو گئی ہے۔
عالمی رہنماؤں کا رد عمل
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے خطے میں حالیہ تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''مزید عام شہریوں کی ہلاکتوں کو روکنے کی ذمہ داری'' اسرائیل اور فلسطینی حکام پر عائد ہوتی ہے۔
یورپی یونین میں امور خارجہ کے سربراہ جوسیپ بوریل کے ایک ترجمان نے بھی پیر کے روز کہا کہ مغربی کنارہ، مشرقی یروشلم اور غزہ میں تشدد میں اضافے کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے اسرائیل کے بجائے حماس کی جانب سے راکٹ فائر کیے جانے کی مذمت کی اور گروپ سے اسے فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا۔ اسرائیل کے قریبی اتحادی امریکا نے اقوام متحدہ کی جانب سے اس مجوزہ بیان کی بھی حمایت کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جس میں اسرائیل سے شیخ جراح کے اطراف میں بسے فلسطینیوں کی بے دخلی کو روکنے کی بات کہنے پر غور کیا جا رہا تھا۔
ادھر ترکی کے صدر طیب رجب ایردوآن نے فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ سے فون پر بات چیت کے دوران کہا ہے کہ وہ اسرائیلی دہشت گردی سے لڑنے کے لیے تحریک شروع کریں گے۔
یروشلم میں جھڑپوں کی وجوہات
حالیہ جھڑپوں کا تعلق یروشلم کے پرانے شہر سے ہے۔ اسرائیل مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے آس پاس بسے فلسطینیوں کو وہاں سے بے دخل کر کے ایک نئی یہودی بستی بسانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ اس حوالے سے عدالت میں بھی ایک کیس چل رہا ہے جس پر کچھ وقت کے لیے سماعت ملتوی کر دی گئی ہے۔
اسرائیل کی وزارت انصاف نے اتوار کے روز کہا تھا کہ وہ اس مقدمے کی سماعت کو موخر کر رہا ہے جس کی وجہ سے مشرقی یروشلم میں آباد فلسطینی خاندانوں کو ممکنہ طور پر ان کے گھروں سے بے دخل کیے جانے کا خدشہ ہے۔
اس علاقے پر اسرائیل اور فلسطین دونوں کا دعوی ہے۔ اسی علاقے میں مسجد اقصی بھی واقع ہے اس لیے مذہبی اعتبار سے مسلمانوں کے لیے یہ بہت اہم ہے۔ یہ پورا علاقہ مسیحی اور یہودی برادری کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ یہودیوں کا ٹیمپل ماؤنٹ بھی بیت المقدس کے پاس ہے جبکہ حضرت عیسی کی پیدائش بھی اسی قدیمی شہر بیت اللحم میں ہوئی تھی۔
دانستہ اشتعال انگیزی
فلسطینی رہنما اور معروف کارکن حنان اشراوی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا ہے کہ اسرائیل دانستہ طور پر فلسطینیوں کو اکسا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''اسرائیل نے مقدس مقامات اور نمازیوں کو نشانہ بنایا۔ جیسا کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ آگ سے کھیل رہے ہیں اور ٹکراؤ کے
لیے اشتعال انگیز صورت حال برپا کر رہے ہیں۔ وہ ایسا مسلسل کرتے رہے اور پھر نتیجتاًکشیدگی میں اضافہ ہوا۔''
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی بے دخلی محض معاوضے سے حل نہیں ہو گی۔ ان کا کہنا تھا، ''اسرائیل یروشلم میں آبادی میں غیر مناسب تبدیلی یا نسلی صفائی کرتا رہا ہے۔ وہ فلسطینیوں کے گھروں کو ہڑپ کرتا رہا ہے وہ انہیں ان کے اپنے گھروں سے لات مار مار کر نکالتا رہا ہے۔ وہ فلسطینیوں کے مکانات کو منہدم کرتا رہا ہے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''مسئلہ صرف بے دخلی اور معاوضے کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ فلسطینیوں سے اپنا پیچھا چھڑانا چاہتا ہے اور فلسطینیوں کے ہی شہر کو ان سے مکمل صفایا چاہتا ہے۔ اسرائیل دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ یروشلم پر قبضہ کرنے، اس کے کردار کو تبدیل کرنے اور یروشلم پر غیر قانونی خود مختاری کی اجارہ داری میں کس حد تک آگے جا سکتا ہے۔''
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)