غزہ کا شفا ہسپتال غیر معمولی توجہ کا مرکز
14 نومبر 2023اسرائیل نے کوئی ثبوت فراہم کیے بغیر دعویٰ کیا ہے کہ عسکریت پسند گروہ حماسالشفا ہسپتال کو اپنے عسکری مقاصد کے لیے بھی استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس نے اس ہسپتال کے زیر زمین ایک 'کمانڈ کمپلیکس سینٹر‘ تعمیر کر رکھا ہے، جو سرنگوں سے جڑا ہوا ہے۔ تاہم ہسپتال کی انتظامیہ اور حماس نے اسرائیل کے اس الزام کی تردید کی ہے۔
اسرائیلی فوج نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اُسے غزہ کے ایک ہسپتال کے تہہ خانے سے ہتھیار ملے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہگاری کے مطابق الرنتیسی ہسپتال کے تہہ خانے میں یرغمالیوں کو رکھے جانے کے شواہد بھی ملے ہیں۔ ہگاری چند غیر ملکی صحافیوں کے ساتھ خود وہاں موجود تھے۔ اس موقع پر فوجی ترجمان نے تہہ خانے کی فوٹیج دکھا تے ہوئے بتایا کہ دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ یہاں سے دھماکہ مواد، دستی بم، بندوقین اور کمپیوٹر اور کچھ نقدی بھی قبضے میں لی گئی ہے۔
شفا ایک ہسپتال اور ایک پناہ گاہ بھی
شفا ہسپتال کے بارے میں فلسطینیوں کا دعوی ہے کہ یہ صحت کی دیکھ بھال کے انتظامات کے حوالے سے طبی خدمات کا ایک معتبر ادارہ ہے۔ غزہ میں چل رہے تنازعے، فنڈنگ کی کمی اور اب اس علاقے میں اسرائیل اور مصر کی مشترکہ ناکہ بندی، جس کا مقصد دہشت گرد تنظیم حماس کو کمزور کرنا ہے، اس ہسپتال کی کارکردگی کی خرابی اور اس کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی کا سبب بنی ہے۔ غزہ کے زیر انتظام اس علاقے کی صحت کی وزرات کے مطابق شفا کے پاس 500 سے زیادہ بستر اور طبی آلات جیسے کہ ایم آر آئی اسکین، ڈائیلاسز مشین اور انتہائی نگہداشت کا یونٹ موجود تھا، جو غزہ کے تمام میڈیکل سرگرمیوں کی تقریباً نصف کی ذمہ داری اُٹھائے ہوئے تھا۔
تاہم جنگ شروع ہونے کے بعد ہزاروں فلسطینی اپنی جانیں بچانے کے لیے اس ہسپتال میں داخل ہو گئے۔ تاہم تنازعہ بڑھتے ہی اس ہسپتال میں پناہ لیے ہوئے افراد کی اکثریت غزہ کے جنوبی علاقے سے نکل گئی اور اس علاقے کے 2.3 ملین باشندوں پر مشتمل آبادی میں شامل ہو گئی۔ دو ملین سے زیادہ ان فلسطینیوں کا ایک تہائی حصہ اپنا گھر بار چھوڑ چکا ہے۔
شفا ہسپتال کے حکام نے بتایا کہ سینکڑوں لوگ، بشمول طبی کارکن، قبل از وقت پیدا ہونے والے بچے اور دیگر مریض ہسپتال سے نکل بھی نہیں سکتے اور وہیں ہلاک ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے شفا ہسپتال کی انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ اُس کے آخری جینیریٹر کا ایندھن ختم ہونے کو ہے۔ حکام نے بعد ازاں بتایا کہ ہسپتال میں موجود 32 مریض، بشمول تین بچے، مر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 36 دیگر بچوں کی زندگی شدید خطرے میں ہے کیونکہ ان کی جان بچانے کے لیے درکار ضروری سامان ختم ہو چُکا ہے۔ پیر کے روز ایک تصویر شائع ہوئی، جس میں ایک درجن سے زائد نوزائیدہ بچوں کو کمبلوں میں لپٹا دیکھا جا سکتا ہے۔ انہیں کمبلوں کی مدد سے گرمائش مہیا کر کے زندہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وزارت صحت کے ایک ترجمان مدحت عباس نے ایک بیان میں کہا،''میری دعا ہے کہ یہ بچے کسی طرح بچ جائیں۔‘‘
دریں اثناء انٹر نیشنل ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے کہا کہ اگرچہ بین الاقوامی قانون جنگ کے دوران ہسپتالوں کو خصوصی تحفظ فراہم کرتا ہے تاہم یہ ہسپتال اس تحفظ سے اُس وقت محروم کر دیے جاتے ہیں، جب جنگجوؤں کی طرف سے اسے اسلحہ چھپانے اور دیگر عسکری سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کے آثار ملیں۔ تب بھی ہسپتال کے عملے کے اراکین اور مریضوں کو وہاں سے نکالنے کی اجازت دینے کے لیے کافی انتباہ دیا جانا چاہیے۔ مزید یہ کہ اگر فوجی مقاصد کے لیے کیے گئے کسی حملے سے شہریوں کو پہنچنے والا نقصان غیر متناسب ہے تو یہ بھی بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہے۔
اسرائیل کا موقف
اسرائیل طویل عرصے سے حماس پر اپنے شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگاتا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ گروہ اکثر پرہجوم رہائشی علاقوں سے اسرائیل کی طرف راکٹ فائر کرتا ہے اور اس کے جنگجوؤں نے گنجان آباد محلوں کے اندر گھس کر اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ جھڑپیں کی ہیں۔ حالیہ تنازعے کے دوران اسرائیل مسلسل تصاویر اور ویڈیو فوٹیج جاری کرتا رہا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس کے جنگجو ہسپتالوں اور دیگر سویلین عمارتوں کو اپنے کمانڈ سینٹر اور گولہ بارود کے گوداموں کے طور پر استعمال کرتے ہیں جب کہ یہاں موجود عام افراد کو انسانی ڈھال بنایا جاتا ہے۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس مساجد، اسکولوں اور ہسپتالوں کے اندر ہتھیار اور دیگر سامان محفوظ کیے ہوئے ہے۔
ک م/ ع ا/ ر ب(اے پی، روئٹرز)