غزہ کی جنگ کے چھ ماہ: ’فتح سے ایک قدم دور ہیں،‘ نیتن یاہو
7 اپریل 2024یروشلم سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی سربراہ حکومت نے کہا کہ ان کا ملک عسکریت پسند تنظیم حماس کے خلاف جنگ میں کسی فائر بندی پر تب تک راضی نہیں ہو گا، جب تک غزہ پٹی میں حماس کے زیر قبضہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا جاتا۔
غزہ میں اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے اے آئی کا استعمال تشویشناک ہے، گوٹیرش
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنا یہ تازہ بیان اسرائیلی کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس کے آغاز پر آج اتوار کے دن ایک ایسے وقت پر دیا، جب مصری دارالحکومت قاہرہ میں حماس اور اسرائیل کے مابین فائر بندی کے سلسلے میں بین الاقوامی ثالثی میں مذاکرات کا نیا دور شروع ہونے والا ہے۔
نیتن یاہو نے کابینہ کے اجلاس کے آغاز پر کہا کہ مسلسل بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کے باوجود ان کا ملک غزہ پٹی پر حکمران فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے 'انتہائی نوعیت‘ کے مطالبات کے آگے سر نہیں جھکائے گا۔
ساتھ ہی نیتن یاہو نے یہ بھی کہا، ''اسرائیل غزہ کی جنگمیں اپنی کامیابی سے اب محض ایک ہی قدم دور ہے۔ مگر ہم نے اس کے لیے جو قیمت چکائی ہے، وہ بہت تکلیف دہ اور دل توڑ دینے والی ہے۔‘‘
قاہرہ میں فائر بندی مذاکرات کا نیا دور
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے فائر بندی سے متعلق آج جو بیان دیا، اس کی مخاطب بین الاقوامی برادری بھی تھی اور قاہرہ میں ثالثی کوششیں کرنے والے سیاسی اور سفارتی حلقے بھی۔ مختلف خبر رساں اداروں کی رپورٹوں کے مطابق اسی لیے نیتن یاہو نے زور دے کر کہا کہ یرغمالیوں کی واپسی تک کوئی فائر بندی نہیں ہو گی۔ ان کے الفاظ میں، ''ایسا بالکل نہیں ہو گا۔‘‘
ساتھ ہی انہوں نے مزید کہا، ''اسرائیل کسی ڈیل کے لیے تو تیار ہے، لیکن ہتھیار ڈال دینے پر بالکل تیار نہیں۔‘‘
اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کی جائے، اقوام متحدہ
امریکہ، مصر اور قطر گزشتہ کئی مہینوں سے دوحہ اور قاہرہ میں ہونے والے ثالثی مذاکرات کے ذریعے اس کوشش میں ہیں کہ اسرائیل اور حماس کے مابین پہلے فائر بندی ہو جائے اور پھر مزید مکالمت کے ساتھ اس سیزفائر کو مستقل جنگ بندی کی شکل دے دی جائے۔
غزہ جنگ سے متعلق پاکستان کی قراداد اقوام متحدہ میں
اسرائیل پر اس جنگ میں فائر بندی کے لیے اس کے امریکہ اور برطانیہ جیسے اتحادی ممالک سمیت بین الاقوامی برادری کی طرف سے دباؤ یکم اپریل کے اس واقعے کے بعد سے شدید ہو چکا ہے، جب غزہ میں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں ورلڈ سینٹرل کچن نامی ایک امدادی تنظیم کے سات کارکن مارے گئے تھے۔
جنوبی غزہ سے اسرائیلی فوجی انخلا
اسرائیلی فوج اور میڈیا نے آج بتایا کہ کئی ماہ تک جاری رہنے والی زمینی کارروائیوں کے بعد، جن کے نتیجے میں غزہ پٹی کا علاقہ پوری طرح تباہ ہو چکا ہے، اسرائیلی فوجی دستے اتوار سات اپریل کو جنوبی غزہ سے واپس چلے گئے۔ فوج کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ''اسرائیل نے جنوبی غزہ پٹی سے، خان یونس کے شہر سمیت، اپنے تمام فوجی دستے واپس بلا لیے ہیں۔‘‘
غزہ کی جنگ امریکی اسرائیلی تعلقات کا امتحان بھی
ساتھ ہی اسرائیلی فوج کی طرف سے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بھیجے گئے ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا، ''جنوبی غزہ سے انخلا کے باوجود، اسرائیلی فوج کی ایک 'مناسب فورس‘ محاصرہ شدہ غزہ پٹی کے باقی ماندہ حصے میں اپنی کارروائیاں کرتی رہے گی۔‘‘
اس بیان کے بعد سلامتی امور کے ایک اسرائیلی ماہر عمر دوستری نے اے ایف پی کو بتایا، ''جنوبی غزہ پٹی سے اسرائیلی فوجی انخلا جنگی حکمت عملی ہی کا حصہ اور ایک اسٹریٹیجک اقدام ہے۔ اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ یہ جنگ کسی بھی طرح اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے۔‘‘
غزہ میں سات امدادی کارکنوں کی ہلاکت، عالمی سطح پر مذمت
دوستری نے مزید کہا کہ ایک بار غزہ پٹی کے مختلف حصوں میں جنگی کارروائیاں ماند پڑ گئیں، تو پھر اسرائیلی زمینی دستے جنوبی لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ ملیشیا کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز کر دیں گے۔
غزہ میں فلسطینی ہلاکتوں کی نئی مجموعی تعداد
غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق آج اتوار کے دن تک اس فلسطینی خطے میں جنگ کے دوران مجموعی طور پر کم از کم بھی 33,175 افراد مارے جا چکے تھے۔ ان میں بہت بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی تھی۔
پوپ فرانسس کا غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ
ٹھیک چھ ماہ قبل حماس کے سینکڑوں عسکریت پسندوں نے گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر جو دہشت گردانہ حملہ کیا تھا، اس میں بھی 1,170 اسرائیلی اور غیر ملکی مارے گئے تھے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ اس کے علاوہ واپس جاتے ہوئے حماس کے جنگجو ڈھائی سو کے قریب اسرائیلیوں کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔ ان میں سے سو سے زائد یرغمالی ابھی تک غزہ پٹی میں حماس کی قید میں ہیں۔
م م / ع آ، ع ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)