1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فتوؤں کی جنگ روکنا ہو گی!

9 دسمبر 2021

قائد اعظم کے پاکستان میں کسی کو آئین شکنی سے روکنا خطرناک ہے۔ آئین کو بوٹ کی نوک پر لکھنے والے فوری طور پر آپ کو غدار قرار دے ڈالیں گے۔ قائد اعظم کے پاکستان میں کسی کو کام چوری سے روکنا بھی خطرناک ہے۔

https://p.dw.com/p/441th
Pakistan Journalist Hamid Mir
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

اگر کام چوری سے روکنے والا غیر مسلم ہو تو اس کے ساتھ وہی ہو سکتا ہے، جو کچھ دن پہلے سیالکوٹ میں ایک فیکٹری کے سری لنکن مینجر پریانتھا کمارا کے ساتھ ہوا۔ معلوم ہوا کہ سری لنکن مینجر بہت ایماندار شخص تھا۔ غریبوں کی مدد کرتا تھا لیکن کام کے معاملے میں رعایت نہیں کرتا تھا۔ کام چوروں کے ساتھ سختی کرتا تھا بلکہ نوکری سے نکال دیتا تھا۔ ایسے ہی کچھ کام چوروں نے اسلام کی آڑ میں اس ایماندار شخص پر جھوٹا الزام لگا کر پہلے اُسے قتل کیا اور پھر اس کی لاش کو جلا کر سیلفیاں بناتے رہے۔

بہت سے لوگ حیران ہیں کہ اسلام تو امن  و سلامتی اور سچائی کا درس دیتا ہے تو پھر ایک مسلمان کسی پر جھوٹا الزام لگا کر اُسے قتل کیسے کر سکتا ہے؟ حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ قائد اعظم  کے پاکستان میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔

پاکستان بننے سے پہلے قائد اعظم پر بھی کفر کے فتوے لگائے گئے۔ ایک مرتبہ تو قائد اعظم کو انگریزوں کا ایجنٹ قرار دینے والوں نے اُن پر قاتلانہ حملہ کرا دیا لیکن قائد اعظم بچ گئے۔ قائد اعظم  پر خنجر سے حملہ کرنے والے شخص کا نام رفیق صابر مزنگوی تھا اور اس کا تعلق خاکسار تحریک سے تھا۔

اس شخص نے 26 جولائی 1943ء کو قائد اعظم پر ممبئی میں حملہ کیا۔ حملے میں قائد اعظم کی  ٹھوڑی پر زخم آیا لیکن انہوں نے حملہ آور کا وار اپنے ہاتھ سے روک لیا۔ اس سے قبل قائد اعظم کو رفیق صابر مزنگوی کے ساتھیوں نے خطوط لکھے تھے کہ اگر انہوں نے گاندھی جی کے ساتھ اتحاد نہ کیا تو انہیں گولی مار دی جائے گی۔

 گاندھی جی سیکولرازم کے نام پر ہندوؤں کے مفادات کا تحفظ کر رہے تھے، اسی لیے قائد اعظم نے کانگریس چھوڑ کر آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ گاندھی سے ہاتھ نہ ملانے پر انہیں انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیا گیا اور کافر اعظم بھی کہا گیا۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ قائد اعظم پر قاتلانہ حملہ کرنے والا بھی ایک مسلمان تھا اور ان پر کفر کے فتوے بھی مسلمانوں نے لگائے۔ صرف قائد اعظم ہی نہیں بلکہ علامہ اقبال پر بھی کفر کے فتوے لگائے گئے۔

قائد اعظم کی طرح  علامہ اقبال کو بھی کچھ حاسدین انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیتے تھے۔ ایسے ہی کسی حاسد نے 1925ء میں لاہور کی مسجد وزیر خان کے خطیب مولوی دیدار علی شاہ الوری کو علامہ اقبال کے کچھ اشعار بھجوائے۔ ان میں ایک شعر یہ بھی تھا،

غضب ہیں یہ مُرشدانِ خود بیں، خُدا تری قوم کو بچائے

بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزّت بنا رہے ہیں

مولوی دیدار نے ان اشعار کی بنیاد پر شاعر کو کافر قرار دے دیا۔ سازش کرنے والے کی چالاکی دیکھیے کہ اس نے مولوی دیدار سے فتویٰ لے کر مولانا ظفر علی خان کے اخبار زمیندار کو بھجوا دیا۔ مولانا ظفر علی خان اور ان کے نائب مدیر غلام رسول مہر دونوں بیرون ملک تھے اور یہ فتویٰ زمیندار میں شائع ہو گیا۔ جٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے اپنی کتاب ''زندہ رود‘‘ میں مولوی دیدار کا فتویٰ من و عن شائع کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ فتوے کی اشاعت پر علامہ اقبال کی بجائے مولوی صاحب کی مذمت ہوئی۔

1926ء میں علامہ اقبال نے لاہور سے پنجاب اسمبلی کے لیے الیکشن لڑا تو مخالف امیدوار ملک محمد دین نے انہیں وہابی قرار دے دیا اور اہل سنت والجماعت کے نام پر ووٹ مانگنے لگا لیکن علامہ اقبال یہ الیکشن جیت  گئے۔

 1927ء میں ایک ہندو پبلشر راج پال نے رنگیلہ رسول کے نام سے ایک کتاب شائع کر کے ہندو مسلم نفرتوں کی آگ بھڑکا دی۔ علامہ اقبال نے پنجاب اسمبلی میں 25 جولائی 1927ء کو ایک قرارداد کے ذریعے توہین انبیاء و بزرگانِ دین کے انسداد کے لیے قانون بنانے کا مطالبہ کیا۔ یہ قانون بنا کر نافذ کر دیا گیا۔ مسلمانوں نے اس قانون کے تحت راج پال کے خلاف مقدمہ درج کرایا لیکن اسے کوئی سزا نہ ملی۔

1929ء میں لاہور میں ایک نوجوان غازی علم دین نے راج پال کو قتل کر دیا۔ لاہور ہائی کورٹ میں غازی علم دین کا مقدمہ قائد اعظم نے لڑا لیکن غازی علم دین کو پھانسی کی سزا ملی۔ غازی علم دین کو لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا جا رہا تھا تو ان کے جسدخاکی کو قبر میں علامہ اقبال اور مولوی دیدار نے مل کر اتارا۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ غازی علم دین کی حمایت کرنے والے علامہ اقبال اور قائد اعظم بعد میں بھی کئی مذہبی شخصیات کے الزامات اور فتوؤں کی زد میں رہے۔ کانگریس کے حامی مسلمانوں کے پروپیگنڈا کے باعث، جب ایک مسلمان قائد اعظم  پر حملہ آور ہو گیا تو پھر کچھ مسلمان علماء بھی کھل کر قائد اعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت میں آ گئے۔

کانگریسی علماء نے گاندھی، نہرو اور سردار پٹیل کی قیادت کو شرعاﹰ جائز قرار دیا تو 1945ء میں مفتی محمد شفیح صاحب نے کانگریس کی حمایت پر کفر کا فتویٰ لگا دیا۔ مفتی رفیع عثمانی نے مفتی محمد شفیع صاحب کی زندگی پر لکھی گئی کتاب ''حیاتِ مفتی اعظم‘‘ میں وہ تفصیل بیان کی ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے کچھ علماء نے کن وجوہات کی بنیاد پر قائد اعظم کی حمایت شروع کی، جن کا تعلق ایک شیعہ خاندان سے تھا۔

سید صابر حسین بخاری نے ''قائد اعظم کا مسلک‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی، جس میں بریلوی علماء کے ساتھ قائد کی قربت کی تفصیل موجود ہے۔ اس کتاب میں وہ فتوے بھی موجود ہیں، جو مسلم لیگ کے حامی بریلوی علماء نے کانگریس والوں کے خلاف دیے۔

ایسی کئی کتابیں موجود ہیں، جن کو پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ تحریک پاکستان میں قائد اعظم کا مقابلہ صرف کانگریس سے نہیں بلکہ کانگریس کے حامی فتویٰ بریگیڈ سے بھی تھا اور اس فتویٰ بریگیڈ کا مقابلہ کرنے کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ نے بھی مختلف مکاتب فکر کے علماء کا ایک فتوی بریگیڈ تیار کیا۔ اس ''فتویٰ وار‘‘ میں آخر کار مسلم لیگ جیت گئی۔

پاکستان کا خواب دیکھنے والے علامہ اقبال کا تعلق ایک سنی گھرانے سے اور اس خواب کو حقیقت بنانے والے قائد اعظم کا تعلق ایک شیعہ گھرانے سے تھا۔ دونوں فرقہ واریت سے دور رہنے والے سیدھے سادھے عام مسلمان تھے، جن پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔ یہ فتوے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔

افسوس کہ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے۔ 1948ء میں ان کی وفات کے بعد کفر کے فتوؤں اور غداری کے الزامات کا سلسلہ جاری رہا۔ جنرل ایوب خان نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو انڈین ایجنٹ قرار دے دیا۔

 پھر انہی الزامات کے تحت شیخ مجیب الرحمان  کو اگرتلہ سازش کیسں میں ملوث کیا گیا۔ عدالت میں الزام ثابت نہ ہو پایا اور شیخ مجیب الرحمان بنگالیوں کے ہیرو بن گئے۔ آخرکار غداری کے الزامات نے پاکستان توڑ دیا۔

 16 دسمبر 2021ء کوسقوط  ڈھاکا کے پچاس سال پورے ہو جائیں گے لیکن کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ بچےکچھے پاکستان کو جھوٹ اور نفرت کی آگ میں جلایا جا رہا ہے۔ وہ سلسلہ، جو مولوی دیدار اور رفیق صابر مزنگوی نے قیام پاکستان سے قبل شروع کیا تھا، اسے آج روکا نہ گیا تو پاکستان کو بچائے رکھنا مشکل ہو جائے گا۔