فرانس اور اٹلی کا شینگن معاہدے میں اصلاحات کا مطالبہ
26 اپریل 2011سارکوزی اور برلسکونی کی روم میں ملاقات کے بعد جاری کیے گئے ایک اعلان میں کہا گیا کہ ان دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک مشترکہ خط پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ اس خط کے ذریعے یہ دونوں رہنما روم میں یورپی یونین کی اگلی سربراہی کانفرنس میں یہ مطالبہ کریں گے کہ شمالی افریقہ سے ہزاروں کی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کو روکا جائے۔
نکولا سارکوزی اور سلویو برلسکونی نے ملاقات کے بعد اپنے مشترکہ خط میں کہا کہ شمالی افریقی تارکین وطن کی بڑی تعداد میں یورپ آمد ایک غیر معمولی واقعہ ہے، جو یورپی یونین کے شینگن معاہدے میں ترامیم کا تقاضا کرتا ہے۔فرانسیسی صدر کے اٹلی کے آج کے دورے کا مقصد یہ تھا کہ شمالی افریقہ سے ترک وطن کر کے آنے والے مہاجرین کی وجہ سے پیرس اور روم کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کیا جائے۔
داخلی طور پر نکولا سارکوزی کو اپنے ملک میں غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ فرانس میں اگلے سال ہونے والے صدارتی الیکشن سے پہلے ان پر انتہائی دائیں بازو کے سیاستدانوں کی جانب سے ڈالا جانے والا دباؤ بھی ہے۔ نکولا سارکوزی نے آج منگل کو روم میں اطالوی وزیر اعظم سلویو برلسکونی کے ساتھ مذاکرات میں اس بات پر بھیزور دیا کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کی زیادہ سخت اور کامیاب نگرانی کی جانی چاہیے۔
پیرس اور روم کے درمیان پائے جانے والے موجودہ اختلاف کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اٹلی کی خواہش ہے کہ فرانس بھی اٹلی پہنچنے والے شمالی افریقی تارکین وطن کو اپنے ہاں قبول کرے۔ پیرس حکومت اس پر ابھی تک عملی طور پر آمادہ نہیں ہے۔
فرانس اوراٹلی کے درمیان اختلاف کی ایک وجہ لیبیا سے متعلق پالیسی بھی ہے لیکن تارکین وطن کے معاملے پر ان دونوں یورپی ملکوں میں اس لیے بہت زیادہ اختلافات رائے پایا جاتا ہے کہ شمالی افریقہ میں تیونس اور لیبیا جیسے ملکوں میں بدامنی کی وجہ سے ابھی تک بڑی تعداد میں وہاں سے آنے والے مہاجرین یورپ پہنچ رہے ہیں۔
اس دورے کے دوران فرانس کے ڈیری مصنوعات تیار کرنے والے گروپ Lactalis کی طرف سے Parmalat کو خریدنے کی کوشش پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اٹلی اس بہت بڑے اطالوی ادارے کو اپنی معیشت کے لیے اسٹریٹیجک حوالے سے انتہائی اہم سمجھتا ہے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: افسر اعوان