فرانس میں برقعے پر پابندی کا مجوزہ قانون، سینیٹ سے منظور
15 ستمبر 2010منگل کو فرانسیسی سینیٹ میں اس پابندی کے حق میں 246 ممبران نے ووٹ ڈالا جبکہ صرف ایک ممبر نے اس کی مخالفت کی۔ فرانس میں برقعہ پہننے پر پابندی کے اس مجوزہ قانون کو ملکی پارلیمان پہلے ہی منظور کر چکی ہے۔ اب یہ معاملہ فرانس کی آئینی کونسل کے پاس جائے گا۔ آئینی کونسل سے منظوری کے بعد صدر نکولا سارکوزی کے دستخط کے ساتھ اسے قانون کا درجہ دے دیا جائے گا۔
اس قانون میں اسلام کا ذکر کہیں بھی نہیں کیا گیا لیکن صدر نکولا سارکوزی کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کے باعث فرانس میں مسلمان خواتین کو زبردستی برقعہ کروانے کا عمل ختم ہوجائے گا۔
یورپ کے کئی ممالک میں برقعہ پر پابندی عائد کرنے کےحوالے سے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں تاہم فرانس میں یہ معاملہ کچھ اس لئے بھی متنازعہ ہوگیا ہےکیونکہ وہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد سکونت پذیر ہے۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق فرانس میں صرف دو ہزار خواتین برقعہ پہنتی ہیں۔ اس مجوزہ قانون کے مطابق عوامی مقامات پرخواتین اپنے چہرے کو مکمل طور پر نہیں چھپا سکیں گی۔
اگر فرانس کی آئینی کونسل اس قانون کی منظوری دے دیتی ہیں تو چھ ماہ کے اندر اندر اس قانون پر عملدرآمد شروع کر دیا جائے گا۔ فرانس میں اس قانون کو متعارف کروانے پر وہاں بسنے والے کئی مسلمان حلقوں میں شدید ردعمل پایا جا تا ہے، انسانی حقوق کے کچھ اداروں کے مطابق اس قانون سے مذہبی آزادی کو بھی زک پہنچتی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اگر فرانس حکومت اس قانون پر اطلاق شروع بھی کر دیتی ہے تو یورپی عدالت برائے انسانی حقوق میں اسے چیلنج کیا جا سکے گا۔
اس قانون میں تجویزکیا گیا ہے کہ اگر کوئی خاتون عوامی جگہ پر نقاب یا برقعہ پہپنے ہوئی پائی گئی تو اسے ابتدائی طور پر 150 یوروجرمانے کی سزا دی جائے گی جبکہ اگر کوئی مرد کسی خاتون کو برقعہ کرنے پر مجبور کرتا ہے تو اسے تیس ہزار یورو کے جرمانے کے علاوہ ایک سال قید کی سزا بھی سنائی جا سکے گی۔
دریں اثناء مختلف جائزوں کے مطابق مغربی ممالک کے عوام اس طرح کی پابندی کے حق میں ہیں۔ ایک حالیہ بین الاقوامی سروےکے مطابق فرانس میں دس میں سے ہرآٹھویں فرد نے اس پابندی حق میں ووٹ دیا ہے۔ اسی طرح جرمنی میں71 فیصد اور برطانیہ میں 65 فیصد عوام نے برقعہ یا نقاب پر پابندی کی حمایت کی ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عدناب اسحاق