فرانس میں برقع قابل قبول نہیں، سارکوزی
23 جون 2009برقعے سے متعلق فرانسیسی صدر کے بیان کے بعد فرانسیسی پارلیمان نے32 ممبران پر مشتمل ایک کمشین بنانے کا اعلان کیا ہے جو برقعے کے رواج پر تحقیق کرے گا۔ اس کمیشن کی تحقیق کا بنیادی مقصد ان مسلمان خواتین کی تعداد معلوم کرنا ہے، جو برقعہ پہنتی ہیں۔ یہ کمشین جولائی میں اپنے کام کا آغاز کرے گا اور چھ ماہ بعد اپنی رپورٹ پارلیمان کو پیش کرے گا۔
گذشتہ روز شیٹو ڈی ویرسائی میں پارلیمان کے ایک خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے اس حوالے سے کہا : ’’ہم یہ تسلیم نہیں کرسکتے کہ ہمارے ملک میں عورتیں پردے کے پیچھے قید ہوں اور سماجی زندگی سے پوری طرح سے کٹی ہوئی ہوں، اور ان کی کوئی شناخت نہ ہو۔ فرانس جمہوریہ کا عورتوں کے وقار سے متعلق تصور یہ نہیں ہے۔‘‘
فرانسیسی صدر نے اپنے خطاب میں برقع کو مذہب کی نہیں بلکہ عورتوں کی محکومی کی نشانی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ "فرانسیسی جمہوریہ میں یہ قابل قبول نہیں ہوگا"۔ سارکوزی نے واضح کیا کہ وہ ایسی مسلمان خواتین کا احترام کرتے ہیں، جو ایمان رکھتی ہیں اور اسلامی طریقے کے مطابق لباس پہنتی ہیں مگر وہ اُن کٹر قدامت پسندوں کے خلاف ہیں، جو عورتوں پر سر سے پیر تک برقعہ پہنے کی پابندی عاید کرتے ہیں۔ اس نئی بحث کا مقصد یہ جائزہ لینا ہے کہ برقعے کا رجحان عورتوں کے حقوق اور فرانس کی سیکولر روایات پر کیا اثرات مرتب کرے گا۔
اپنے اِس خطاب میں فرانسیسی صدر نے برقعہ پر پابندی کے علاوہ یورپ کے مستقبل کے حوالے سے وسیع تر اصلاحات کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
سارکوزی کا پیر کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے کیا گیا خطاب کسی بھی فرانسیسی صدر کا 19ویں صدی کے بعد سے اب تک کا پہلا خطاب ہے اور یہ اس لئے ممکن ہوا کیوں کہ گذشتہ سال آئین میں اس حوالے سے ترمیم کی گئی تھی۔
فرانس میں پانچ ملین مسلمان آباد ہیں جو کہ مغربی یورپ میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی ہے۔ سال 2004ء میں فرانس کے اسکولوں میں مسلمان طالبات کے حجاب سمیت تمام مذہبی علامتوں پر پابندی عائد کرنے بعد اب فرانسیسی حکومت برقعے کے استعمال کو سراسر ممنوع قرار دینے پر بھی غور کر رہی ہے۔
رپورٹ : میراجمال
ادارت : امجد علی