فلسطینی امداد میں کمی، بل امریکی ایوانِ نمائندگان میں منظور
6 دسمبر 2017اس بل کی منظوری کے حوالے سے اراکینِ ایوانِ نمائندگان کا کہنا ہے کہ امریکی امداد سے بظاہر تاثر یہ ملتا ہے کہ یہ امداد قتل کی وارداتوں کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہے۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے رکن ایڈ روائس کا کہنا ہے کہ اس مالی امداد کے پروگرام نے حساس دہشت گردی کو جنم دیا ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی مالی امداد زیادہ تر جرائم پیشہ قیدیوں میں تقسیم کر دی جاتی رہی ہے اور جتنی طویل سزا اتنی زیادہ مالی امداد دی جاتی رہی ہے۔
فلسطینی حملہ آور کی فائرنگ کے نتیجے میں تین اسرائیلی ہلاک
'تیرہ سالہ فلسطینی لڑکی کو جان سے مارنے کی ضرورت نہیں‘
تل ابیب میں فلسطینی کا چاقو سے حملہ، دو اسرائیلی ہلاک
فسلطینیوں کا ’یوم غضب‘، تین ہلاک
ایوانِ نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن ایلیٹ اینجل کا کہنا تھا کہ اسرائیلی شہریوں پر حملے کرنے والے جب ہلاک ہو جاتے ہیں تو انہیں ’شہید‘ قرار دے کر اس امریکی امداد کا حقدار قرار دیا جاتا ہے۔ اینجل نے یہ بھی کہا کہ فلسطینی حملوں سے خطے میں دو ریاستی حل کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے۔
دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ امریکی امداد کے حوالے سے امریکی کانگریس کے اراکین کو ناقص اطلاعات اور معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ان کے مطابق فلسطینی حکام اس امداد کے تحت اُس پروگرام کو جاری رکھے ہوئے تھے، جہاں کسی خاندان کی کفالت کرنے والا موجود نہیں رہتا۔
فلسطینی رہنماؤں اور سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ اسرائیل کے قبضے میں سے ویسٹ بینک، غزہ پٹی اور مشرقی یروشلم کو آزاد کرایا جائے۔ ان تجزیہ کاروں کے مطابق یہی وہ کلیہ ہے، جس کے ذریعے دہشت گردی کو پوری طرح شکست دی جا سکتی ہے۔
امریکی ایوانِ نمائندگان میں منظور کیے جانے والے بل کو ایک طالب علم ٹیلر فورس کے نام منسوب کیا گیا ہے۔ امریکی طالب علم ٹیلر فورس مارچ سن 2016 میں سیاحت کے لیے اسرائیل گیا ہوا تھا، جب ایک فلسطینی کے چاقو سے کیے گئے حملوں کی زد میں آ کر وہ مارا گیا تھا۔ وہ ٹینیسی یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔
مقتول ٹیلر فورس عراق اور افغانستان میں جنگی خدمات انجام دے چکا تھا۔ اس بل کی منظوری کے وقت اُس کے والدین بھی ایوان نمائندگان کی گیسٹ لابی میں موجود تھے۔