’فلسطینی نواز اسرائیلی تنظیموں کے خلاف‘ قانون سازی
12 جولائی 2016اسرائیلی پارلیمان کنیسٹ کے ترجمان نے منگل کے روز بتایا کہ اس قانون میں ایسی غیر سرکاری تنظیموں سے جواب طلبی کی جائے گی، جن کو زیادہ تر رقم بیرون ملک سے فراہم کی جاتی ہے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا، ’’ اس قانون کی مدد سے ان غیر سرکاری تنظیموں کی نگرانی کی جائے گی، جو بیرون ملک سے ملنے والی امداد سے غیر ملکی مفادات کے لیے کام کرتی ہیں اور ایسا دکھائی دیتا ہے، جیسے مقامی تنظمیوں کی چھتری تلے کام کرنے والی یہ این جی اوز اسرائیلی شہریوں کے لیے کام کر رہی ہوں۔‘‘ تاہم ناقدین کے مطابق یروشلم حکومت اپنی اس متنازعہ قانون سازی کے ذریعے بائیں بازو کی ان تنظیموں کو نشانہ بنانا چاہتی ہے، جو فلسطینیوں کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔
اس قانون پر کنیسٹ میں طویل بحث کی گئی، جس کے بعد اس کے حق میں 57 اور مخالفت میں 48 ارکان نے ووٹ دیے۔ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے مطابق اس قانون کا مقصد کسی ایسی خراب صورتحال کو رونما ہونے سے روکنا ہے، جس میں غیر ملکی عناصر مقامی این جی اوز کے ذریعے اسرائیلی کے داخلی معاملات میں مداخلت کریں اور اسرائیلی عوام کو اس کا علم بھی نہ ہو‘‘۔ ان کے بقول بائیں بازو کے قوتوں کے دعوؤں کے برخلاف اس قانون کی منظوری سے این جی اوز کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ شفافیت پیدا ہو گی اور اس سے جمہوریت بھی مستحکم ہو گی۔
اس قانون کی منظوری کے بعد غیر سرکاری تنظیموں پر لازم ہے کہ وہ اپنی آمدنی کے ذرائع این جو اوز رجسٹرار کو بتائیں اور انہیں ویب سائٹ پر بھی شائع کریں۔ کنیسٹ میں رائے شماری سے قبل حزب اختلاف کے رہنما آئزک ہیرزوگ نے کہا کہ اسرائیل میں فساد اور فاشزم کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ یہ قانون فلسطینیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی پچیس غیر سرکاری تنظیموں پر لاگو ہو گا جبکہ دائیں بازو کی وہ تنظیمیں جو غرب اردن اور دیگر علاقوں میں اسرائیلی قبضے کی حمایت کرتی ہیں، اس قانون سے مبرّا ہوں گی۔