فلوجہ میں آئی ایس کے خلاف گھیرا تنگ، فوج شہر میں داخل
30 مئی 2016عراقی فوج کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عبدالوہاب السعدی کے مطابق، ’’عراقی فوجیں فلوجہ میں داخل ہو گئی ہیں اور اس دوران ہمیں بین الاقوامی اتحاد کی جانب سے فضائی حملوں کا تعاون بھی حاصل ہے۔ عراقی فوج اور آرمی ایوی ایشن توپ خانہ اور ٹینک بھی استعمال کر رہی ہے۔‘‘ السعدی اس آپریشن کی سربراہی بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انسداد دہشت گردی کے لیے خصوصی ’سی ٹی ایس‘ فورسز ، صوبہ انبار کی پولیس اور ملکی فوج مقامی وقت کے مطابق صبح چار بجے فلوجہ میں تین اطراف سے داخل ہوئیں۔ ان کے بقول، ’’انہیں اس دوران اسلامک اسٹیٹ یا داعش کی جانب سے جوابی حملے کیے جا رہے ہیں۔‘‘
یہ کارروائی شروع کرنے سے قبل حکومتی دستوں سے جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ شہری علاقہ چھوڑ دیں یا پھر اپنے گھروں پر سفید پرچم لہرا دیں تاکہ ان گھروں کو ہر طرح سے تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی جائے۔ تاہم آئی ایس نے تمام بیرونی راستوں پر نگرانی بڑھا دی اور شہریوں کو باہر نکلنے نہیں دیا۔ اس وجہ سے صرف چند خاندان ہی فلوجہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو پائے۔ اندازہ ہے کہ ابھی تک پچاس ہزار سے زائد افراد شہر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سلامتی کے اداروں کے مطابق یہ دہشت گرد تنظیم ان افراد کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہے۔
عراقی جنگ کے دوران امریکی دستوں کو بھی فلوجہ میں داخل ہوتے وقت شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ فلوجہ آپریشن کا آغاز ایک ہفتہ قبل کیا گیا تھا اور ابتدائی مرحلے میں شہر کے نواح میں موجود دیہات اور دیگر علاقے آئی ایس سے خالی کرائے گئے۔ فلوجہ عراق کا وہ دوسرا شہر ہے، جس کا انتظام آئی ایس کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے علاوہ موصل پر بھی یہ دہشت گرد تنظیم قابض ہے۔ فلوجہ پر جنوری 2014ء میں اسلامک اسٹیٹ نے قبضہ کیا تھا۔
فلوجہ دارالحکومت بغداد سے مغرب کی جانب پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ 2014ء کے موسم گرما میں اسلامک اسٹیٹ نے شمالی اور مغربی بغداد کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ تاہم حکومتی دستوں کو تازہ کارروائیوں کے دوران بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور فلوجہ اور موصل کے علاوہ تقریباً تمام ہی علاقوں میں اس تنظیم کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔