فلپائن: حد سے زیادہ بھری جیلیں: ایک ’جہنم‘ کی چند جھلکیاں
فلپائن میں صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے نے ملک میں منشیات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی جو مہم شروع کی ہے، اُس کی وجہ سے جیلوں میں اب تِل دھرنے کو جگہ باقی نہیں رہی۔ دارالحکومت منیلا کے قریب ’سِٹی جیل‘ کے ’ہولناک‘ مناظر۔
کھلے آسمان تلے قید
جن قیدیوں کو کوٹھڑیوں کے اندر جگہ نہیں ملتی، اُنہیں کھلے آسمان تلے سونا پڑتا ہے۔ آج کل فلپائن میں بارشوں کا موسم ہے۔ ایک طرف انتہا کی گرمی ہے اور دوسری طرف تقریباً ہر روز بارش بھی ہوتی ہے۔
سونے کا ’کئی منزلہ‘ اہتمام
ایسے میں وہ قیدی خوش قسمت ہیں، جن کے پاس اس طرح کا کوئی جھُولا ہے، جسے وہ بستر کی شکل دے سکتے ہیں۔ ساٹھ برس پہلے تعمیر کی جانے والی اس جیل میں صرف آٹھ سو قیدیوں کی گنجائش ہے لیکن آج کل یہاں تین ہزار آٹھ سو قیدی سلاخوں کے پیچھے زندگی گزار رہے ہیں۔
ہو گا کوئی کمرہ، جہاں ’سانس لی جا سکتی ہو گی‘
اس جیل کا ہر کونا کھُدرا کسی نہ کسی کے قبضے میں ہے۔ زیادہ تر قیدی انتہائی پتلی چادروں پر یا پھر کنکریٹ کے ننگے فرش پر سونے پر مجبور ہیں۔
طاقتور رہنا چاہیے
ایک قیدی ’ایکسرسائز روم‘ میں ورزش کرتے ہوئے اپنے پٹھے مضبوط بنا رہا ہے۔
سخت قواعد و ضوابط
جگہ جگہ لگی تختیاں جیل کے قواعد و ضوابط کی یاد دہانی کراتی ہیں۔ ہتھکڑیاں پہنے یہ قیدی اپنے مقدمات کی کارروائی کے منتظر ہیں۔
صفائی ستھرائی کی ’سروس‘
ایک قیدی ٹائلٹ صاف کر رہا ہے جبکہ دوسرے قیدی کسی نہ کسی طرح اپنا وقت کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نہانے دھونے کا کمرہ
ان قیدیوں کو اپنے پسینے، بدبو اور غلاظت سے نجات حاصل کرنے کے مواقع کبھی کبھی ہی ملتے ہیں۔
ایک اور مشکل رات
ایک پہرے دار شام کو ایک گیٹ کو تالا لگا رہا ہے جبکہ سلاخوں کے پیچھے لیٹے ہوئے قیدی گنجائش سے کہیں زیادہ نفوس پر مشتمل اس جیل میں ایک اور رات گزارنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
کوئی سمجھوتہ نہیں
ان ’غیر انسانی‘ حالات کے لیے نو منتخب صدر ڈوٹیرٹے کو قصور وار قرار دیا جاتا ہے، جنہوں نے منشیات کے خلاف ایک ’بے رحمانہ‘ مہم شروع کر رکھی ہے۔ انہوں نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ منشیات کے عادی لوگوں کو مار ڈالیں، جس پر اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں لوگوں کی جانب سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ عدالتی نظام چھ لاکھ ڈیلرز اور نشئیوں کے خلاف مقدمات کے باعث دباؤ میں ہے۔