اسپیشل رپورٹ: جرمنی کا وفاقی جمہوری نظام کیسے کام کرتا ہے؟
30 مارچ 2021یورپ کے دل میں وہ خطہ جسے دنیا جرمنی کے نام سے جانتی ہے، بڑی بھرپور اور متنوع تاریخ کا حامل ہے۔ جرمن ریاست میں وفاقی ڈھانچے کسی نا کسی شکل میں صدیوں سے چلے آ رہے ہیں۔ جرمنی کے ہمسایہ ملک فرانس میں پیرس قرون وسطیٰ کے اوائل میں ہی دارالحکومت اور ایک اہم عسکری مرکز بن گیا تھا۔ مگر دریائے رائن سے مشرق کی طرف واقع خطے میں زیادہ تر مقامی نوابوں اور جاگیر داروں کی حکومت تھی، جن کے زیر اثر علاقوں میں زبان تو ایک تھی مگر ایسی جرمن نوابی جاگیریں آپس میں بہت مربوط نہیں تھیں۔
جرمنی میں وفاقی سیاسی نظام کے تاریخی پس منظر کو سمجھنا ان نظام کے سمجھنے کے لیے ضروری ہے، جس کے تحت موجودہ وفاقی جمہوریہ جرمنی کے سولہ وفاقی صوبے، جو دراصل وفاقی ریاستیں کہلاتے ہیں، اس ریاست کی جدید شکل میں اپنا کام کرتے ہیں۔
اپنی اکائیوں کے مجموعے سے زیادہ مضبوط
جو علاقہ آج جرمن ریاست کہلاتا ہے، وہ ماضی میں زیادہ تر شاہی یا مقامی نوابی خاندانوں کے زیر اثر ایسے علاقوں پر مشتمل تھا، جن میں بریمن جیسی چھوٹی چھوٹی شہری ریاستیں بھی شامل تھیں اور پرُوشیا جیسی بڑی بادشاہتیں بھی۔
بعد میں اس ریاست میں کئی ایسی چھوٹی بادشاہتیں اور شہری ریاستیں بھی شامل ہو گئیں، جہاں عوامی حقوق بڑے متنوع تھے اور رائج سکے بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف۔
جرمنی میں ساڑھے چھ ملین انسانوں کی داخلی نقل مکانی
اسی لیے یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی کہ مختلف شاہی یا نوابی ریاستوں میں خود مختاری کی سطح بھی مختلف تھی۔ صدیوں تک اس خطے میں، جو آج جرمنی کہلاتا ہے، کوئی مرکزی حکمران طاقت نہیں تھی۔
ان خطوں کے حکمران پہلے مقدس رومن شہنشاہ کو مالی ادائیگیاں کرتے تھے اور پھر بعد میں جرمن شہنشاہ کو۔ ان ادائیگیوں کے بدلے رومن یا جرمن شہنشاہ ان خطوں کی بیرونی حملوں سے تحفظ اور غیر ملکی جنگوں میں مدد کرتے تھے۔
سلطنت کی تعمیر نو
بادشاہوں اور شہنشاہوں والے نظام کے خاتمے اور وائیمار جمہوریہ کے پرآشوب برسوں کے بعد جرمنی کی وفاقی روایت کو پہلی بار نازیوں نے توڑا تھا۔ تیس جنوری 1933 کے روز اقتدار پر نازیوں کے قبضے کے بعد مقامی جرمن ریاستوں کو متحد کر کے ایک مرکزی نظام اور کنٹرول کے تحت لانے کا عمل شروع کیا گیا۔
’رائش ٹاگ‘ میں جرمن پارلیمان کا پہلا اجلاس: 150 برس قبل
ٹھیک ایک سال بعد تیس جنوری 1934ء کے روز 'سلطنت کی تعمیر نو کا قانون‘ منظور کیا گیا اور تمام جرمن ریاستوں کے حقوق ختم کر دیے گئے۔
مقامی سطح پر مختلف علاقوں کے منتظم وفاقی اداروں کی جگہ 'شاہی گورنر‘ مقرر کر دیے گئے جو جرمن زبان میں Reichsstatthalter کہلاتے تھے۔ یہ 'شاہی گورنر‘ براہ راست برلن میں نازی حکومت کے ماتحت ہوتے تھے اور اس کی جاری کردہ ہدایات پر عمل درآمد کے پابند بھی۔
جمہوریت کی تعمیر نو
دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر جب اتحادیوں کو جرمنی کے خلاف فوجی فتح حاصل ہوئی، تو یہ بحث شروع ہوئی کہ جرمنی میں ریاستی انتظام اور ڈھانچہ کیسا ہونا چاہیے؟ تب جنگ کی فاتح طاقتیں متفق تھیں کہ نازی رہنما اڈولف ہٹلر کی قیادت میں جرمن ریاست میں طاقت اور اختیارات کا ارتکاز ہی نازی آمریت کے عروج کی اہم ترین وجہ تھا۔ اس لیے مستقبل میں طاقت اور اختیارات کے ایسی کسی ارتکاز کو پوری طرح روک دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
جرمن اتحاد کی تیسویں سالگرہ، کورونا نے تقریبات کو دھندلا دیا
پھر جنگ کے بعد جتنی بھی بین الاقوامی کانفرنسیں ہوئیں، ان میں فیصلہ یہ کیا گیا کہ تمام جرمن ریاستوں کے وہ اختیارات بحال کر دیے جائیں، جو نازیوں نے ختم کر دیے تھے۔ اس کے علاوہ جنگ سے پہلے کی جرمن ریاستوں کے علاوہ کئی ایسی نئی جرمن ریاستیں بھی وجود میں آئیں، جو جنگ کی وجہ سے اندرون ملک پیدا ہونے والی علاقائی صورت حال کا نتیجہ تھیں۔
مشرقی جرمن ریاست میں طاقت کا ارتکاز
مشرقی جرمن ریاستیں شروع میں (اب سابق) سوویت یونین کے انتظام میں تھیں۔ یہ ریاستیں بعد میں کمیونسٹ مشرقی جرمن ریاست بن گئیں، جس کا باقاعدہ نام جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک یا جی ڈی آر تھا۔ وہاں وفاقی ریاستیں 1945ء میں 'سوویت فوجی انتظامیہ‘ کی طرف سے منظور کیے گئے ایک قانون کے تحت قائم کی گئی تھیں مگر 1952ء میں جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک کے قیام کے ساتھ ہی انہیں عملاﹰ ختم کر دیا گیا تھا۔
جرمن اتحاد: گورباچوف کامیاب رہے یا ناکام؟
'اشتراکی انتظامی ڈھانچے‘ قائم کرنے کے لیے ان ریاستوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے اختیارات کاؤنٹی اور ضلعی سطح کے انتظامی اداروں کو منتقل کر دیں۔ یوں فیڈرل ازم کو اپنی جگہ جی ڈی آر کے دارالحکومت مشرقی برلن میں ملک سطح پر حکمران سوشلسٹ یونٹی پارٹی کو دینا پڑی۔
جی ڈی آر کے پہلے آزادانہ انتخابات
سیاسی طور پر سوویت بلاک کا حصہ بن جانے والی جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک میں وقت کے ساتھ ساتھ سوشلسٹ پارٹی کا اقتدار کمزور ہوا اور 1989ء میں دیوار برلن گرا دی گئی، تو اہم ترین ذمے داری ملک میں پہلی بار حقیقی معنوں میں آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں منتخب کی جانے والی پارلیمان کا عمل میں آنا بنی۔ ایک بہت اہم مقصد پرانی ریاستوں کی بحالی بھی تھا۔
جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد سابقہ مشرقی جرمنی کے کاروباری خاندانوں کی واپسی
یہ کام بائیس جولائی 1990ء کے روز ہوا اور جی ڈی آر نے اس دور کی مغربی جرمن ریاست کا وفاقی سیاسی نظام اپنا لیا۔ یہ سابقہ مشرقی جرمن ریاست کے وفاقی سیاسی نظام اپنانے کی اسی کلیدی تبدیلی کا نتیجہ تھا کہ اس کے صرف تین ماہ بعد اکتوبر 1990ء میں دونوں جرمن ریاستوں کا باقاعدہ اتحاد عمل میں آ گیا۔
مغرب کے وفاقی نظام کی حقیقت
سابقہ مغربی جرمن ریاست میں، جو وفاقی جمہوریہ جرمنی کہلاتی تھی، اس ریاست کے بانی رہنما چاہتے تھے کہ تمام تر اختیارات مرکزی حکومت کے پاس نا رہیں۔ اس لیے وہ بنیادی قانون، جو دراصل جرمن آئین کی حیثیت رکھتا ہے، جب 1949ء میں بون میں منظور کیا گیا تو پارلیمانی کونسل نے اس بات کو انتہائی زیادہ اہمیت دی کہ وفاقی ریاستوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے ان کی ہر حال میں ضمانت دی جانا چاہیے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد کی دنیا: یالٹا کانفرنس کو 75 برس ہو گئے
یوں ماضی کی طرح آج بھی وفاقی ریاستیں مرکزی حکومت کے اختیارات پر نظر بھی رکھتی ہیں اور ان میں توازن کو بھی یقینی بناتی ہیں۔ جرمنی میں وفاق اور وفاقی ریاستوں کے مابین سیاسی اختیارات اور طاقت کی تقسیم بالکل واضح ہے اور یہی تقسیم دونوں کے لیے ایک دوسرے کے حوالے سے 'نگرانی اور توازن‘ کے عمل کی ضامن بھی ہے۔
سابقہ مشرقی جرمن ریاست کا صنعتی شعبہ، کھنڈرات کیسے بنا؟
تین دہائیوں سے بھی زائد عرصہ قبل جب دونوں جرمن ریاستیں متحد ہوئیں، تو سابقہ مشرقی جرمن ریاست بھی وفاقی جمہوریہ جرمنی کے 'بنیادی قانون‘ کے دائرہ اثر میں آ گئی تھی۔
ترمیم کی کوششیں
جرمنی کے وفاقی نظام کے بارے میں شروع سے ہی کچھ تشویش اور چند انتظامی نقائص بھی پائے جاتے ہیں۔ مختلف وفاقی ریاستوں کی اقتصادی طاقت پہلے کی طرح آج بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔ آج کی وفاقی جرمن جمہوریہ میں آبادی کے لحاظ سے بھی بڑا تنوع پایا جاتا ہے۔ مثلاﹰ سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی آبادی 17 ملین سے زائد ہے تو شمال میں بریمن کی چھوٹی سی شہری ریاست کی آبادی صرف سات لاکھ کے قریب ہے۔
جرمن اتحاد کے بعد سے ملک میں بےروزگاری نئی ریکارڈ حد تک کم
اگر دیوار برلن نہ گرتی تو ۔۔۔ انگیلا میرکل کا خواب کیا تھا؟
اس بات کو 1950 کی دہائی میں مغربی جرمنی میں موجود جنگ کی فاتح طاقتوں نے بھی محسوس کر لیا تھا اور بون میں وفاقی حکومت سے ضروری فیصلوں کے مطالبے بھی کیے تھے۔ لیکن تب سے آج تک جرمنی کی وفاقی ریاستوں کی حدود میں اصلاحات کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔
برلن اور برانڈن برگ کے ادغام کا ریفرنڈم
ایسی اصلاحات کی آخری بڑی کوشش 1996ء میں کی گئی تھی۔ تب ایک ریفرنڈم کا انعقاد کرایا گیا تھا۔ وفاقی دارالحکومت برلن ایک شہری ریاست ہے جو چاروں طرف سے رقبے کے لحاظ سے بہت بڑی ریاست برانڈن برگ میں گھری ہوئی ہے۔
ریفرنڈم میں عوام سے ان دونوں وفاقی ریاستوں کے ممکنہ ادغام سے متعلق رائے لی گئی تھی، مگر عوامی فیصلہ منفی رہا تھا۔
خود مختار اور متحدہ کشمیر: کیا جرمن اتحاد ماڈل ثابت ہو سکتا ہے؟
وفاقی نظام میں اصلاحات
کئی حلقوں کو یقین ہے کہ جرمن فیڈرل سسٹم میں اصلاحات آج بھی ناگزیر ہیں۔ متناسب نمائندگی کے نظام کے باعث برلن میں اکثر وفاقی حکومتیں مخلوط حکومتیں ہوتی ہیں۔ اسی لیے تمام سولہ ریاستی حکومتوں اور مرکزی حکومت کے خد و خال ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ کبھی کبھی ان 17 حکومتوں کی متحدہ اور متفقہ سوچ عملاﹰ ناممکن ہو جاتی ہے۔
کیا ویانا کی بدنام زمانہ ’ہٹلر بالکونی‘ پبلک کے لیے کھولی جانا چاہیے؟
یہ اسی وفاقی نظام حکومت کا نتیجہ ہے کہ آج کے جرمنی میں کبھی کبھی وفاقی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کا اپنی اپنی ریاستوں کی آزادی کے تحفظ کی کوششوں کے دوران رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے وہ قرون وسطیٰ کے دور کی ریاستوں کے شہزادے ہوں۔ لیکن دوسری طرف یہی وفاقی نظام دوسری عالمی جنگ کے بعد سے آج تک جرمنی کی کامیابی میں کلیدی اہمیت کا حامل بھی رہا ہے۔
اس وفاقی نظام کے بغیر نا تو دوسری عالمی جنگ کے بعد دس ملین سے زائد مہاجرین کا جرمن ریاست میں انضمام ممکن ہوتا اور نا ہی 1990ء میں دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کے بعد کے مسائل پر قابو پانا، جو دراصل جدید دنیا کی سیاسی تاریخ میں ایک انتہائی متاثر کن کامیابی ثابت ہوا ہے۔
ماتھیاس فان ہَیلفَیلڈ (م م / ا ا)