1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوجی مشنز کے ليے اضافی اہلکار درکار ہيں، جرمن فوج

عاصم سليم5 دسمبر 2015

شام ميں سرگرم دہشت گرد تنظيم اسلامک اسٹيٹ يا داعش کے خلاف فوجی کارروائی ميں شموليت کے حوالے سے جرمن پارليمان کی منظوری کے ايک دن بعد وفاقی جرمن فوج نے مشن کو ممکن بنانے کے ليے اضافی دستوں کا مطالبہ کر ديا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HHuh
تصویر: Getty Images/J. Moore

’بنڈس ويئر‘ يا جرمن فوج کی يونين کے سربراہ آندرے ووسٹنر نے اخبار ’پاساؤئر نوئے پريسے‘ کو آج ہفتے کے روز انٹرويو ميں کہا، ’’ہميں اس وقت پانچ تا دس ہزار اضافی فوجيوں کی ضرورت ہے۔‘‘ ان کے بقول فوجيوں کی تعداد ميں اضافہ اس ليے لازمی ہے کيونکہ آئندہ برس يکم جنوری سے ايک نئے قانون پر عمل در آمد شروع ہو رہا ہے، جس کے تحت بنيادی آپريشنز کے ليے جرمن فوجیوں کی چوبيس گھنٹے سروس مہيا کرنے کی اجازت نہيں ہو گی۔

قبل ازيں جمعے چار دسمبر کے روز جرمن پارليمان کے ايوان زيريں نے ديگر کئی ممالک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شام ميں اسلامک اسٹيٹ کے خلاف لڑاکا مشن کے ليے ايک سال کی مدت کے ليے بارہ سو جرمن فوجيوں پر مشتمل مشن کی منظوری دے دی تھی۔ جرمنی اپنے چھ ٹورناڈو جاسوسی طیارے، لڑاکا جنگی بحری جہاز اور بارہ سو فوجی شام بھیجے گا۔ جرمن چانسلر انگيلا ميرکل نے آج بروز ہفتہ واضح الفاظ ميں کہا ہے کہ داعش کے خلاف لڑائی ميں شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ تعاون نہيں کيا جائے گا۔

انٹرويو ميں جرمن فوجی يونين کے سربراہ آندرے ووسٹنر نے واضح کيا کہ ماضی ميں فوجی دستوں ميں لائی جانے والی کمی کافی زيادہ رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’سن 2011 ميں متعارف کی جانے والی اصلاحات کے وقت کوئی يوکرائنی مسلح تنازعے يا داعش کے خلاف مشن کا پيشگی اندازہ نہيں لگا سکتا تھا۔‘‘ سياستدانوں کو اس وقت يہ علم نہ تھا کہ فوجی سرگرميوں اور پناہ گزينوں سے نمٹنے جيسے ديگر معاملات کے ليے 2016ء ميں بيس ہزار فوجی درکار ہو سکتے ہيں۔ ووسٹنر کے بقول اب افغانستان کے ليے جرمن مشن ميں بھی توسيع کی جائے گی اور شمالی عراق و افريقی ملک مالی ميں بھی جرمن فوجيوں کی تعداد بڑھائی جائے گی۔ ايسے ميں فوجی اہلکاروں کی تعداد ميں اضافہ اور ساز و سامان ميں بہتری لازمی ہے۔

وزير دفاع اُرزولا فان ڈيئر لائن
وزير دفاع اُرزولا فان ڈيئر لائنتصویر: Reuters/H. Hanschke

جرمن وزير خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے جمعے کو اپنے ايک بيان ميں کہا تھا کہ افرادی قوت کے لحاظ سے فوج پر دباؤ کے باوجود برلن حکومت کی جانب سے اہلکاروں ميں اضافے کا کوئی منصوبہ نہيں۔ ان کے بقول شام ميں مشن کا فيصلہ وزير دفاع اُرزولا فان ڈيئر لائن نے موجودہ دستوں کی بنياد پر ليا تھا۔ اس کے برعکس فوجی اہلکاروں کی تعداد ميں وسعت کے موضوع پر بات کرتے ہوئے وزير دفاع کا کہنا تھا، ’’يہ واضح ہے کہ اگر ہم سے اسی طرز کے مطالبات کيے جاتے رہے، تو ہميں افرادی قوت کے اعتبار سے لچک دکھانی پڑے گی۔‘‘

اس وقت بنڈس ويئر کے فوجيوں کی مجموعی تعداد 179,000 ہے، جن ميں سے قريب تين ہزار بيرون ملک تعينات ہيں۔