فوکوشمیا:چھ سال بعد بھی تابکاری
گیارہ مارچ 2011ء کے فوکوشیما جوہری حادثے کی وجہ سے بہت سے انسانوں کو تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان میں جاپانی شہری اور جوہری صنعت سے منسلک کچھ افراد شامل ہیں۔ کیا اب بھی اس پُر خطر ٹیکنالوجی کا کوئی مستقبل ہے؟
فوکوشیما : جوہری بم سے زیادہ تابکاری
مارچ 2011ء: زلزلے اور سونامی کے بعد فوکوشیما کے جوہری مرکز میں حادثے کے باعث خارج ہونے والی تابکاری کی مقدار ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے پانچ سو گنا زیادہ تھی۔
بھاری لاگت ، بے پناہ تابکاری
اس آفت سے بہت بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ جاپانی حکومت کے مطابق اس حادثے کی وجہ سے 21.5 ارب ین ( 177 ارب یورو ) کے اخراجات آئے جب کہ انسانوں کی تکلیف اور دیگر ممالک تک پہنچنے والی تابکاری کے نقصانات اس سے علیحدہ ہیں۔
بحرالکاہل ابھی تک آلودہ
زلزلے اور سونامی کی وجہ سے فوکوشیما جوہری مرکز کے کولنگ نظام کو بہت شدید نقصان پہنچا تھا جس کے بعد سے مختلف ری ایکٹروں سے تابکاری کا اخراج شروع ہوا۔ اس دوران جوہری مرکز کے نیچے موجود پانی بھی آلودہ ہو گیا۔ اس میں پانی کی کچھ مقدار کو تو پمپوں کے ذریعے نکال لیا گیا تاہم اس آلودہ پانی کا کچھ حصہ بحرالکاہل میں بہہ گیا۔
تھائی رائیڈ یا غدود کے سرطان میں اضافہ
جاپان کی ایک طرح سے خوش قسمتی تھی کہ فوکوشیما حادثے کے فوری بعد چلنے والی تیز ہوائیں تابکاری کو سمندر کی جانب لے گئیں۔ اس کی وجہ سے ٹوکیو کے ارد گرد رہنے والے پچاس ملین شہری اس آفت سے محفوظ رہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق تاہم اس واقعے کے بعد تھائی رائیڈ کے سرطان میں مبتلا ہونے والے بچوں کی تعداد بیس گنا بڑھ گئی ہے۔
اکثریت جوہری ٹیکنالوجی کے خلاف
اس حادثے کے قبل جاپان میں 54 جوہری ری ایکٹرز کام کر رہے تھے اور آج فعال ری ایکٹرز کی تعداد صرف دو ہے۔ تاہم حکومت جوہری توانائی کے استعمال کے اپنے ارادوں پر قائم ہے اور چند ری ایکٹرز کو دوبارہ سے استعمال میں لانے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ ٹوکیو حکام کے ان منصوبوں کی راہ میں متاثرہ علاقوں کے شہری ابھی تک کامیابی کے ساتھ رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
جوہری صنعت بھی بحران کا شکار
فوکوشیما سانحے کے بعد جوہری صنعت کو شدید نقصان پہنچا، جو مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ جاپان، امریکا اور فرانس میں جوہری کمپنیاں خسارے کا شکار ہیں۔ نئی جوہری پلانٹس خریدے نہیں جا رہے اور تعمیر کے نئے منصوبے بھی پس و پیش کا شکار ہیں۔
جوہری پلانٹس ’مفت‘
ایک وقت تھا جب جوہری مراکز کی تعمیر ایک منافع بخش کاروبار تھا۔ اس دوران زیادہ تر مراکز پرانے ہو چکے ہیں، ان کی حالت مخدوش ہے، انہیں فوری طور پر مرمت کی ضرورت ہے اور یہ خسارے کا بھی شکار ہیں۔ اس صورتحال میں سوئٹزرلینڈ کا جوہری ادارہ ’آلپگ‘ اپنے تینتس اور اڑتیس سالہ دو پرانے مراکز توانائی کی ایک فرانسیسی کمپنی کو تحفتاً دینے کی پیش کش کی۔ تاہم فرانسیسی کمپنی نے یہ پیش کش مسترد کر دی۔
جوہری حادثوں سے خوف
یورپی یونین اور سوئٹزرلینڈ میں آج کل 132جوہری مراکز کام کر رہے ہیں۔ ایک جوہری مرکز تیس سے پینتیس سال تک کارآمد رہ سکتا ہے۔ اب یہ جوہری مراکز اوسطاً بتیس سال کے ہو چکے ہیں۔ اس دوران ان میں خرابیوں، مرمت اور چھوٹے موٹے حادثوں کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ تاہم اس دوران عوام کی ایک بڑی تعداد کسی بڑے حادثے سے قبل ان جوہری مراکز کو بند کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
چین کا جوہری توانائی پر انحصار
یورپی یونین، جاپان اور روس جہاں نئے جوہری مراکز تعمیر نہیں کر رہے وہیں چین جوہری توانائی پر اپنا انحصار بڑھا رہا ہے۔ چین کوئلے سے توانائی کے حصول کو ترک کرتے ہوئے جوہری توانائی استعمال کرنے کے اپنے منصوبوں پر قائم ہے۔ تاہم اس دوران بیجنگ حکومت نے قابل تجدید ذرائع سے توانائی کے حصول کے مختلف منصوبوں میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔