فوکوشیما کے متاثرہ ری ایکٹرز کوٹھنڈا کرنے کی کوششیں
17 مارچ 2011ہیلی کاپٹرز کے ذریعے فوکوشیما کے متاثرہ پلانٹ پر پانی گرانے کا مقصد ری ایکٹرز کے کور میں موجود جوہری فیول راڈز کو ٹھنڈا کرنا ہے، تاکہ ری ایکٹرز کو میلٹ ڈاؤن کے خطرے سے بچایا جاسکے۔ دوسری طرف بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی IAEA کے سربراہ یوکیا امانو آج جمعرات کے روز جاپان پہنچ رہے ہیں۔ امانو فوکوشیما کی صورتحال کو نازک قرار دے چکے ہیں۔
جاپان میں جمعہ 11 مارچ کو آنے والے نو کی شدت کے زلزلے کے بعد فوکوشیما جوہری بجلی گھر شدید طور پر متاثر ہوا ہے۔ بدھ کے روز فوکوشیما کے یونٹ نمبر چار میں دوبارہ آگ بھڑک اٹھی جس کے بعد ہنگامی حالات سے نمٹنے والے عملے کو وہاں سے ہٹا لیا گیا تھا۔
منگل کو فوکوشیما ڈائچی پلانٹ کے ری ایکٹر نمبر دو پر دھماکہ ہوا تھا جبکہ اس سے قبل پیر کو اس پلانٹ کے ری ایکٹر نمبر تین میں ہونے والے دھماکے میں 11 افراد زخمی ہوگئے تھے۔ زلزلے سے متاثرہ اس جوہری پاور پلانٹ کے کولنگ سسٹم میں خرابی کے باعث متعدد دھماکوں کے بعد جوہری ماہرین کی طرف سے خدشات ظاہر کیے گئے ہیں کہ اس کے ری ایکٹرز میلٹ ڈاؤن کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ری ایکٹر نمبر ایک پر دھماکہ ہفتے کے روز ہوا تھا۔
دوسری طرف امریکی نیوکلیئر ریگولیٹری کمیشن نے کہا کہ متاثرہ جوہری پلانٹ کا ایک کولنگ پُول تقریباﹰ خشک ہوچکا ہے جبکہ دوسرا لیک کررہا ہے۔ ان کولنگ پُولز میں استعمال شدہ جوہری فیول راڈز موجود ہیں۔ اس کمیشن کے سربراہ Gregory Jaczko کے مطابق تابکاری کا درجہ بھی کافی بڑھ گیا ہے۔
فوکوشیما ڈائچی جوہری پاور پلانٹ دارالحکومت ٹوکیو سے 250 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے۔ جاپانی وزیر اعظم ناؤتو کان نے منگل کو فوکوشیما ڈائچی پلانٹ کے اطراف 30 کلومیٹر کے علاقے میں آباد شہریوں پر زور دیا تھا کہ گھروں کے اندر ہی رہیں۔ اس علاقے میں ایک لاکھ 40 ہزار افراد آباد ہیں۔
جاپان میں جمعہ 11مارچ کو آنے والے بدترین زلزلے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سونامی کے سبب لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ متاثرہ علاقے میں تقریباﹰ 10 لاکھ گھر بجلی سے جبکہ 15 سے زائد گھر پانی سے محروم ہیں۔ جاپانی تاریخ کی اس ہولناک ترین قدرتی آفت کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز کرنے کا خدشہ ہے۔
رپورٹ: افسراعوان
ادارت: شادی خان سیف