فٹ بال کے عالمی ادارے کے حکام رشوت کی زد میں
30 نومبر 2010تینوں افراد کا تعلق فٹ بال کے عالمی نگران ادارے کے ایگزیکٹو رینک سے ہے۔ ان افراد کو مختلف اوقات میں لاکھوں ڈالر فراہم کیے گئے تھے۔ سامنے لائے گئے شواہد کے مطابق ان اہلکاروں میں نکولس لیوز (Nicolas Leoz)، عیسیٰ حیاتو (Issa Hayatou) اور برازیل کے ریکارڈو ٹیکزیرا (Ricardo Teixeira) کے نام شامل ہیں۔ ان عہدیدارون پر الزمات کی تفصیلات برطانوی نشریاتی ادارے کے ایک پروگرام میں پیش کی گئیں۔ الزامات کی صحت کے حوالے سے عہدے داروں یا کھیل کے نگران ادارے فیفا (FIFA) کی جانب سے کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کی گئی ہے۔
برطانوی ادارے نے یہ بھی بتایا ہے کہ فیفا کے ان تین بڑے عہد داران کو مختلف اوقات میں ایک سو ملین ڈالر کی خطیر رقم فراہم کی گئی تھی۔ ایک چوتھے اہلکار کے بارے میں انکشاف کیا گیا کہ وہ عالمی مقابلوں میں ٹکٹوں کی فروخت کے دھندے میں غیر قانونی انداز میں شریک ہو چکا ہے۔ تینوں اہلکاروں کو فراہم کی جانے والی مبینہ رقوم کھیلوں کی مارکیٹنگ کرنے والی کمپنی انٹزنیشنل اسپورٹس اینڈ لیژر (ISL) کی جانب سے سن 1989 سے سن 1999کے درمیان دی گئی تھیں۔ سن 2001 میں یہ کمپنی دیوالیہ ہو کر اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی ہے۔ اسی کمپنی کے ایک سابق اکاؤنٹ منیجر رولینڈ بوئشیل نے بھی اس شک کا اظہار کیا ہے کہ کمپنی کے اندر یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ فیفا اہلکاروں کو پرکشش رشوت دی گئی ہے۔
اس مناسبت سے برطانوی نشریاتی ادارے کو ملک کے اندر خاصی تنقید کا سامنا ہے کیونکہ جمعرات دو دسمبرکو اگلے عالمی مقابلوں کے میزبان ممالک کے ناموں کے لیے ووٹنگ طے ہے۔ انگلینڈ کی جانب سے فٹ بال ورلڈ کپ کی پیشکش کرنے والی کمیٹی کے سربراہ اینڈی اینسن کا کہنا ہے کہ پروگرام کو نشر کرنے کے لئے وقت کا انتخاب مناسب نہیں تھا۔ ان کے خیال میں اس رپورٹ سے ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین کے دلوں میں میل پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔
فیفا کی ایگزیکٹو کمیٹی نے طے کرنا ہے کہ سن 2018 اور سن 2022 میں عالمی کپ کی میزبانی کن ملکوں کو تفویض کی جائے گی۔ اس حوالے سے سن 2018 کے لئے لندن بھی ایک امیدوار ہے۔ لندن کے علاوہ روس، مشترکہ طور پر پرتگال اسپین، بیلجیئم اور ہالینڈ بھی فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی کے خواہشمند ہیں۔
انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے اس رپورٹ کے حوالے سے چان بین کا عندیہ دیا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: افسر اعوان