قبائلی علاقے، حاملہ خواتین کے لیے سہولیات کا فقدان
4 فروری 2017خیبر ایجنسی کے علاقے شلمان سے تعلق رکھنے والے بتیس سالہ کاشف خان کی اہلیہ گزشتہ سال اُس وقت انتقال کر گئیں جب وہ اپنے تیسرے بچے کو جنم دے رہی تھی۔ کاشف خان ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے پہلے دو بچوں کی پیدائش گھر ہی پر ہوئی تھی اور اس دوران ان کی اہلیہ کو کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ تاہم ان کے مطابق 27 مارچ 2016 کی وہ رات ان کے لیے کسی اذیت سے کم نہیں تھی، جب ان کو گھر سے ٹیلی فون کال موصول ہوئی کہ ان کی اہلیہ کی طبیعت سخت خراب ہے اور ان کو ہسپتال لے جانا پڑے گا۔ وہ مزید بتاتے ہیں، ”میں کچھ تجارتی سامان بنوں لے جارہا تھا، مجھے فون پر بتایا گیا کہ مجھے فوراً واپس آنا ہے، جوکہ میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ میں نے بات کو زیادہ سنجیدہ بھی نہیں لیا تھا۔‘‘
علاقے میں لیڈی ڈاکٹر یا کسی تجربہ کار فرد کے نہ ہونے کی وجہ سے ایک مقامی دائی نے فوراً بڑے ہسپتال جانے کا کہا تھا کیونکہ مریضہ کی حالت کافی ناساز تھی اور مسئلہ پیچیدہ ہوچکا تھا۔ ”رات کے وقت اور جب گھر میں کوئی مرد بھی موجود نہ ہو اور پہاڑی علاقے میں ایک حاملہ عورت کا کئی میل تک کا سفر کرنا ممکن نہیں اور یہ صرف ہم قبائلی لوگوں کے نصیب میں ہی ہے۔“ کاشف خان مزید کہتے ہیں کہ اس رات ان کی اہلیہ کو لنڈی کوتل کے ہسپتال پہنچایا ضرور گیا لیکن مردہ حالت میں۔
کاشف خان کی اہلیہ کی طرح ہزاروں قبائلی خواتین بنیادی سہولیات نہ ہونے اور خاندان کی غفلت کی وجہ سے موت کی منہ میں چلی جاتی ہیں۔ باجوڑ ایجنسی کے ایک مرکز صحت سے منسلک سرجن ڈاکٹر رضا خان کہتے ہیں کہ زچگی کے دوران خواتین کی زیادہ تر اموات خاندان ہی کے لوگوں کی لاپرواہی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ان کے بقول اگر مریضہ کا بر وقت معائنہ کیا جائے اور گائنی کالوجسٹ سے ڈیلوری کرائی جائے تو اس شرح میں کمی لائی جاسکتی ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر قبائلی خواتین کا ہسپتال میں جانا اور ڈاکٹر وں سے معائنہ پسند نہیں کرتے جوکہ ایک غلط روایت ہے۔
فاٹا کی سات ایجنسیوں میں صحت کے تقریباً 909 پرائمری اور 44 سیکنڈری مراکز ہیں۔ محکمہ صحت کے مطابق سیکنڈری ہیلتھ سروس یونٹس میں لیڈی ڈاکٹر اور لیبر روم کی سہولت موجود ہوتی ہے جبکہ پرائمری سٹینڈرڈ یونٹس میں، جس میں بیسک ہیلتھ یونٹس، کمیونٹی ہیلتھ سینٹرز اور سول ڈسپنسریاں شامل ہیں، ان مراکز میں لیبر روم کی سہولت نہیں ہوتی البتہ نارمل ڈیلوری کرانے کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکرز موجود ہوتی ہیں، جو کیس کی نوعیت پیچیدہ ہونے پر کسی بڑے ہسپتال سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔
ناہید آفریدی کا تعلق خیبر ایجنسی سے ہے اور وہ خواتین کے ایک فلاحی ادارے تکڑہ قبائلی خویندے (بہادر قبائلی بہنیں) کی رکن بھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ فاٹا میں خواتین کے لیے صحت کے خاطر خوا سہولیات موجود نہیں ہیں۔ ان کے بقول دوران زچگی خواتین کی ہلاکت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ مزید بتاتی ہیں کہ صحت کے محدود مراکز، دشوارگزار راستے اور تجربہ کار عملے کی غیر موجودگی کی وجہ سے قبائلی خواتین کی اموات چھوٹی چھوٹی بیماریوں کی وجہ سے ہو جاتی ہے۔
مہمند ایجنسی میں بطور سینیئر میڈیکل آفیسر کام کرنے والے ڈاکٹر ذاکر حسین کا خیال ہے کہ قبائلی علاقوں میں دوران حمل شرح اموات میں اضافہ ان علاقوں کے قدیم روایت ہے کیونکہ زیادہ تر لوگوں چاہتے ہیں کہ ان کے بچے گھر پر ہی پیدا ہوں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ” گھروں پر ناتجربہ کار دائیوں سے زچگی کرانے سے ماں اور پیدا ہونے والے بچے، دونوں کی زندگی خطرے میں پڑجاتی ہے۔ تاہم ان علاقوں میں یہ ایک معمول کی بات ہے۔‘‘ ڈاکٹر ذاکرحسین اس حقیقت کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ فاٹا میں موجود صحت کے مراکز اور ان میں موجود سہولیات ناکافی ہیں۔
اورکزئی ایجنسی کی رہائشی نوشین اورکزئی کے بقول اول تو ان کے علاقے میں خواتین کے لیے کوئی بھی ایسی لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں ہے جوکہ زچگی کے دوران خواتین کا معائنہ کرے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ اس صورتحال میں خواتین کو علاج کے لیے تقریباً پچاس کلومیٹر دور پاڑہ چنار میں قائم ہسپتال لے جایا جاتا ہے۔ نوشین اورکزئی کے بقول حکومت نے حاملہ خواتین کے علاج معالجے کی طرف کوئی خاص توجہ دی ہی نہیں ہے۔
نوشین اپنے علاقے میں خواتین کے ساتھ ہونے والے برتاؤ کو یوں بیان کرتی ہے، ”فاٹا میں خواتین کے لیے کوئی ایکٹیو لیبر روم موجود نہیں ہے جس میں چوبیس گھنٹے سہولیات میسر ہوں، اگر میں اپنے علاقے کی بات کروں تو ہمارے ہاں عورت کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ ہمارے لوگ تو گھر پر دوران زچگی عورت کی موت پر یہ تک کہتے ہیں کہ 'پردے میں مر گئی ہے‘۔ جبکہ خواتین کے ڈاکٹر کے پاس جانے کو بے عزتی تصور کرتے ہیں۔‘‘نوشین مزید کہتی ہیں کہ دوران حمل خواتین کا ویسا خیال نہیں رکھا جاتا جیسا کہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ حمل کی تکلیف بڑھنے کی صورت میں عورت کو ہسپتال لے جانے کے بجائے گھریلوں ٹوٹکے آزمائے جاتے ہیں، جوکہ خواتین اور نومولود دونوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔
ڈاکٹر ذاکرحسین کہتے ہیں کہ تاحال فاٹا میں دوران زچگی ہلاک ہونے والی خواتین کے اعداد وشمار موجود نہیں ہیں۔ تاہم ان کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ فاٹا کے چھوٹے ہسپتالوں میں لیبر رومز موجود نہیں ہیں۔ تاہم محکمہ صحت کی جانب سے تمام عملے کو حاملہ خواتین کو قریب میں واقع بڑے ہسپتال لے جانے کا مشورہ دینے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ تاکہ ماں بچے دونوں کی زندگی بچائی جاسکے۔