قرآن میں سزاؤں کی درست تفہیم: سیاق و سباق لازمی، آسٹرین محقق
6 جون 2015جنوبی جرمن شہر اشٹٹ گارٹ سے موصولہ نیوز ایجنسی ای پی ڈی کی رپورٹوں کے مطابق 43 سالہ مُھنّد خورشید نے یہ بات آج ہفتہ چھ جون کو ایک کثیر المذہبی مباحثے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ علوم اسلامیہ کے ماہر مُھنّد خورشید کا تعلق ایک فلسطینی لبنانی گھرانے سے ہے، وہ سعودی عرب میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور آسٹریا کے شہری ہیں۔ 2010ء سے وہ شمالی جرمن شہر میونسٹر کی ولہیلم یونیورسٹی کے مرکز برائے مسلم الٰہیات کے ڈائریکٹر ہیں۔
مُھنّد خورشید نے جرمن پروٹسٹنٹ کلیسا کی طرف سے اہتمام کردہ 35 ویں چرچ کنونشن کے موقع پر ’خدا کی رحم دلی اور انسان کے پرتشدد ہونے‘ کے موضوع پر ایک مباحثے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن میں جس جس جگہ پر طاقت کے استعمال کا ذکر ملتا ہے، اسے محض لغوی سطح پر اور سیاق و سباق کے بغیر سمجھنا غلط ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی قرآنی آیات کی درست تفہیم سیاق و سباق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
میونسٹر کے اسلامی مذہبیات کے مرکز کے اس ڈائریکٹر کے مطابق سزاؤں اور طاقت کے استعمال کا حکم دینے والی قرآنی آیات کو اگر محض ان کے ’سخت لغوی معنی‘ کے ساتھ سمجھا جائے تو ان کے ممکنہ طور پر غلط سمجھے جانے یا پھر تشدد کو جائز قرار دینے کے لیے غلط استعمال کیے جانے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔
مُھنّد خورشید ’اسلام رحم دلی ہے‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ ایک ماہر اسلامیات کے طور پر وہ مذہب کے ایسے تصور کی حمایت کرتے ہیں، جس میں بہت رحیم خدا اور قرآنی احکامات میں محبت اور رحم دلی کی تلقین کو مرکزی اہمیت حاصل ہو۔
اس مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے وُرٹمبرگ کے پروٹسٹنٹ کلیسا کے بشپ فرانک اَوٹفریڈ یُولی نے مسیحی حاضرین سے کہا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں موجود مسلمانوں سے رابطے قائم کریں اور ان کے ساتھ کھلے دل سے مکالمت کا سلسلہ شروع کریں۔ بشپ اَوٹفریڈ یُولی نے کہا کہ دوسروں کے ساتھ مکالمت سے کسی کا مذہب خراب نہیں ہوتا۔
بشپ اَوٹفریڈ یُولی کے مطابق مذاہب کے مابین مکالمت کا کوئی متبادل نہیں ہے اور صرف اسی مکالمت کے ذریعے ہی آپس میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا سدباب کیا جا سکتا ہے۔