قرن افریقہ میں قحط سے نمٹنے کے لیے عالمی بینک امداد بڑھا دے گا
25 ستمبر 2011عالمی بینک نے اس سال جولائی میں افریقہ میں قحط کے بعد اس خطے کے لیے ابتدائی طور پر پانچ سو ملین ڈالر کے برابر کی امداد کا فیصلہ کیا تھا۔ اب ان امدادی رقوم میں تین گنا سے بھی زیادہ کا اضافہ کرتے ہوئے ان کی مالیت ایک اعشاریہ نو بلین ڈالر کے قریب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس عالمی مالیاتی ادارے کے صدر رابرٹ زوئلک نے کہا ہے کہ ان رقوم کی مدد سے ایک بلین ڈالر کے برابر ان وسائل کی کمی کو بلا تاخیر پورا کیا جا سکے گا جو قحط سے متاثرہ افریقی باشندوں کی مدد کے لیے درکار ہیں۔
روبرٹ زوئلک نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ قرن افریقہ کے خطے میں مسلسل خشک سالی اور قحط نے جن ملکوں کو بری طرح متاثر کیا ہے، ان میں صومالیہ، کینیا، ایتھوپیا، اریٹریا، جبوتی اور یوگنڈا شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان ملکوں کے وسیع تر حصوں میں تیرہ ملین سے زائد انسانوں کو اشیائے خوراک کی عدم دستیابی کی انتہائی بحرانی صورت حال کا سامنا ہے، جو رو بروز شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔
افریقہ میں اسی قحط سے متعلق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے نیو یارک میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو کئی ملین قحط زدہ انسانوں کی مدد کے لیے سال رواں کے دوران مزید سات سو ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔ بان کی مون کے مطابق اگلے برس ان افریقی متاثرین کی امداد کے لیے اور بھی زیادہ مالی وسائل کی ضرورت ہو گی۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق قرن افریقہ کے ان قحط زدہ انسانوں کی فوری مدد کے لیے قریب دو اعشاریہ چار بلین ڈالر کی ضرورت تھی۔ ان میں سے بین الاقوامی امداد دہندگان نے ایک اعشاریہ چار بلین ڈالر مہیا کرنے کی حامی بھری جبکہ ایک بڑا خلا پرکیا جانا ابھی باقی ہے۔ اس قحط سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک صومالیہ ہے جہاں قریب ساڑھے سات لاکھ انسانوں کو مسلسل بھوک کا سامنا ہے۔
عالمی بینک نے افریقہ کے قحط زدہ علاقوں کے لیے اپنی امداد میں جس تین گنا سے بھی زیادہ اضافے کا اعلان کیا ہے، اس کے بارے میں روبرٹ زوئلک نے کہا، “یہ رقوم تین مراحل میں مہیا کی جائیں گی۔ ان کا زیادہ تر حصہ لمبی مدت کے منصوبوں کے لیے استعمال میں لایا جائے گا۔ اس مسئلے کے حل میں مدد دیتے ہوئے اس بات پر بھی دھیان دیا جائے گا کہ یہ انسانی المیہ وہاں کل دوبارہ نئے سرے سے جنم نہ لے۔ اس بحران کو ایک مستقل المیہ نہیں بننا چاہیے۔“
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: شادی خان سیف