قصوروار اشرف غنی ہیں، جرمنی بدر ہونے والا افغان مہاجر
26 اکتوبر 2017افغان حکام نے تصدیق کر دی ہے کہ افغان مہاجرین کا ایک اور گروہ بدھ کے دن کابل پہنچ گیا۔ افغان بارڈر فورس کے ترجمان اجمل فیضی نے ڈی پی اے سے گفتگو میں کہا کہ مشرقی جرمن شہر لائپزگ کے ہوائی اڈے سے ایک پرواز کے ذریعے ان افغان مہاجرین کو واپس روانہ کیا گیا۔
ملک بدر کیے گئے افغان مہاجر جرائم میں ملوث تھے، ڈے میزیئر
جرمنی سے افغانوں کی ملک بدری: کوئی فیصلہ نہ کرنا اچھا فیصلہ
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری پھر سے شروع
جرمن وزارت دفاع کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جن چودہ افراد کو افغانستان واپس روانہ کیا گیا، ان میں گیارہ سزا یافتہ مجرم تھے جبکہ باقی تین نے جرمنی میں پناہ کی درخواست جمع کراتے ہوئے غلط بیانی کی تھی۔ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ افغان باشندے جرمنی کے مختلف سات صوبوں میں قیام پذیر تھے۔
دسمبر سن 2016 میں افغان تارکین وطن کی اجتماعی ملک بدری کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس سلسلے کے تحت یہ افغان مہاجرین کا ساتواں گروپ تھا، جسے واپس افغانستان روانہ کیا گیا ہے۔ جرمن حکام کے مطابق اب تک مجموعی طور پر 128 افغان باشندوں کو وطن واپس روانہ کیا جا چکا ہے۔
جرمن اور افغان حکومتوں کے مابین گزشتہ برس اکتوبر میں طے پانی والی ایک ڈٰیل کے تحت ایسے افغان مہاجرین کو وطن واپس روانہ کیا جا رہا ہے، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت پر شروع کی گئی تھی، جب جرمن حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہو چکا ہے کہ وہ مسترد شدہ پناہ کے متلاشی افراد کی ملک بدری کے عمل میں تیزی لائے۔
بدھ کے دن کابل پہنچنے پر اکیس سالہ افغان مہاجر تیمور نے کہا کہ افغان حکومت کی وجہ سے انہیں جرمنی بدر کیا گیا ہے۔ افغان صوبے پروان کے رہائشی تیمور نے کہا کہ افغان صدر اشرف غنی نے جرمنی سے ڈیل کرتے ہوئے برلن حکومت کو اجازت دی ہے کہ جرمنی سے افغان مہاجرین کو ملک بدر کرتے ہوئے دوبارہ ایک خطرناک ملک بھیج دیا جائے۔ جرمن حکومت نے تیمور کی پناہ کی درخواست دو مرتبہ مسترد کی تھی۔ تیمور کے مطابق حرمن حکومت کے مطابق وہ یہ ظاہر کرنے میں ناکام ہو گئے تھے کہ افغانستان میں ان کی زندگی خطرے میں ہے۔
جب افغان تارکین وطن کو ملک واپسی کی خاطر لائپزگ کے ہوائی اڈے لے جایا جا رہا تھا تو جرمن اور افغان مہاجرین نے وہاں ایک مظاہرہ بھی کیا تھا۔ ان مظاہرین کا کہنا تھا کہ ان مہاجرین کو واپس نہ بھیجا جائے کیونکہ افغانستان محفوظ ملک نہیں ہے۔ کئی انسانی حقوق کے کارکن بھی زور دیتے ہیں کہ افغان تارکین وطن کو اس صورتحال میں واپس افغانستان روانہ نہیں کرنا چاہیے، جب وہاں طالبان کے حملوں میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔ صرف گزشتہ ہفتے کے دوران ہی افغان دارالحکومت کابل میں ہوئے متعدد دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں 74 افراد ہلاک ہوئے تھے۔