قندوز پر طالبان کا ایک اور حملہ
3 اکتوبر 2016مقامی حکام نے خبر رساں اداروں کو بتایا کہ طالبان نے انتہائی منظم انداز میں قندوز کے جنوبی اور مشرقی حصوں سے شہر میں داخل ہونے کی کوشش کی ہے اور کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی جھڑپیں جاری ہیں۔ اس بیان میں ہلاکتوں یا زخمیوں کی تعداد کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا گیا۔ طالبان نے ستمبر 2015ء میں قندوز پر مختصر دورانیے کے لیے قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے دو ہفتوں بعد افغان دستے قندوز کو آزاد کرانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ پندرہ سال سے جاری شورش کے دوران طالبان کسی بڑے شہر پر قابض ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد صرف افغانستان میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔
صوبائی گورنر کے ترجمان محمود دانش نے بتایا کہ مقامی دستوں نے طالبان کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور دشمن اب شہری علاقوں کو استعمال کرنے کی کوششوں میں ہیں، ’’ہمارے دستے دشمنوں کو نشانہ بنانے کے دوران بہت احتیاط سے کام لے رہے ہیں تاکہ شہری ہلاکتوں سے ہر طرح سے بچا جا سکے۔‘‘ اس موقع پر ملکی فضائیہ بھی زمینی دستوں کو مدد فراہم کر رہی ہے۔ ان کےبقول، ’’طالبان شہر پر قبضہ نہیں کر سکیں گے۔‘‘ دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے قندوز کی مختلف چوکیوں پر قبضہ کرنے کا دعوی کیا ہے۔
ایک سینیئر پولیس اہلکار شیر علی کمال کے مطابق، ’’ہم طالبان کو پیچھے دھکیلنے کے لیے تمام تر کوششیں کر رہے ہیں۔‘‘ قندوز میں 2013ء کے آخر تک جرمن فوج تعینات تھی اور رواں برس مارچ سے جرمن فوجیوں کا ایک چھوٹا سا گروپ افغان دستوں کی مشاورت فراہم کر رہا ہے۔ قندوز اسی نام کے صوبے کا دارالحکومت بھی ہے اور اسے عسکری لحاظ سے انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ شمال میں اس صوبے کی سرحدیں تاجکستان سے ملتی ہیں اور یہ علاقہ اپنی ذرخیزی کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔