قوم افسردہ، سیاسی قیادت مطمئن
31 مارچ 2011وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھارت سے واپسی پر جمعرات کے روز صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد جاری ہونے والے سرکاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے صدر کو اپنے دورہ بھارت کے بارے میں بریفنگ دی۔ صدر آصف علی زرداری نے دونوں رہنمائوں کی ملاقات کو خطے کے لیے مثبت اثرات کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان تمام حل طلب مسائل پر بامقصد مذاکرات میں مدد ملے گی۔
پاکستانی وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ کرکٹ میچ میں شکست پر مایوسی ہوئی ہے لیکن سفارتی محاذ پر پاکستان کو کامیابی ملی ہے. پارلیمنٹ ہائوس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’مثبت چیز یہ ہے کہ پہلی بار برابری کی بنیاد پر بھارتی قائدین کی طرف سے یہ اظہار کیا گیا ہے کہ ہمیں مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے نکالنا چاہیے اور مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔ جب تک بھارتی قیادت مسائل پر توجہ نہیں دیتی اور مسائل سے آنکھیں چراتی رہے گی یہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔ بلکہ پہلے سے توجہ طلب معاملات ہمارے لیے مزید پریشانی کا باعث بنیں گے۔‘‘
حکومت کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان کا کہنا ہے کہ کرکٹ میچ نے دونوں ممالک کی قیادت کو متحد کر دیا ہے جو نہ صرف خطے کے لیے بلکہ پوری دنیا کے خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا، ’’کتنی دیر میں مسائل حل ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے، کتنا ٹائم لیتے ہیں، دیکھیں تریسٹھ سال کی دشمنی کے مسائل ایک دن اور رات میں حل ہو جائیں گے تو یہ ممکن نہیں ہے لیکن بات چیت ہونی چاہیے اور اچھی پیشرفت کی توقع رکھنی چاہیے کہ دونوں ممالک کے درمیان دوستی بڑھے۔‘‘
ادھر اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ق کی سینیٹر سیمی صدیقی کا کہنا کہ کرکٹ ڈپلومیسی تصویریں کھنچوانے کے لیے تو اچھا موقع ہے لیکن اس سے سفارتی میدان میں کامیابی کم ہی ملتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میں نہیں سمجھتی کے کرکٹ ڈپلومیسی سے کوئی اچھے نتائج نکل سکتے ہیں۔ یہ اس عمل کا ایک یونٹ ہو سکتا ہے لیکن ہمارا سب سے اہم مسئلہ کشمیر کا ایشو ہے اور کشمیر کا مسئلہ کبھی بھی کرکٹ ڈپلومیسی سے حل نہیں ہو سکتا اس کے لیے الگ مذاکرات چاہیئں۔‘‘
دوسری جانب ماضی کے برعکس اس مرتبہ بھارت سے شکست کے باوجود عوام میں کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے خلاف شدید ردعمل نہیں پایا جاتا۔ مبصرین کے مطابق قومی ٹیم کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے میں میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ہے، جس پر کہا جا رہاہےکہ بظاہر ایک بکھری ہوئی ٹیم کا ورلڈ کپ میں متحد ہوکر سیمی فائنل تک پہنچنا ہی بڑی کامیابی ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: امتیاز احمد