قوم کی بیٹیوں کو پڑھانے والا پشاور کا مسیحی خاندان
20 دسمبر 2020یہ کہانی ایک ایسے مسیحی خاندان کی ہے، جس نے پشتون قوم کی بیٹیوں کو پڑھایا ہے۔ اس مشکل اور کٹھن سفر میں اس خاندان کی خواتین کا کردار سب سے نمایاں ہے۔
درس وتدریس کا ایک سو سالہ پرانا سفر
علم کی شمع جلائے رکھنے والے درس وتدریس سے وابستہ اس خاندان کا یہ سفر تقریباﹰ گزشتہ ایک سو سالوں سے جاری ہے۔ پروفیسرالون ایڈون جو اے ایڈون کے نام سے جانے جاتے ہیں اس خاندان کے سربراہ ہیں۔
ڈی ڈبلیو کو اپنے خاندان کی داستان سناتے ہوتے کہتے ہیں،''الزبتھ سکول پشاور کے علاقے کریم پورہ کی ایک تنگ سی گلی میں 1905ء میں انگریز دور حکومت میں قائم کیا گیا تھا۔ اس وقت اس سکول کو روایات کے خلاف سمجھا جاتا تھا کیونکہ انگریز دور حکومت میں لڑکیاں پردے میں یہاں آتیں اور تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ ‘‘ اُس وقت پروفیسر ایڈون کی نانی مسز آئی ڈی پرکاش اس سکول میں پڑھایا کرتی تھیں۔ یہاں ہندو، سکھ اور ایک دو مسلم گھرانوں کی لڑکیاں پڑھنے آتی تھیں۔
پختون جج
پروفیسر ایڈون کے مطابق ان کی نانی کی ہمیشہ سے خواہش اور کوشش تھی کہ پختون بچیاں بھی یہاں تعلیم حاصل کریں مگر جب 1930ء میں الزبتھ سکول اپنی اس وقت نئی اور آج کی موجودہ عمارت میں منتقل ہوا اور ایک انگریز خاتون مس میریٹ اس کی پرنسپل تعینات ہوئیں تو مسز آئی ڈی پرکاش کو انگریز دور کے ایک پختون جج کے بارے میں معلوم ہوا۔
مٹہ مغل خیل سے تعلق رکھنے والے اس جج کی 5 بیٹیاں تھیں۔ ان کے بارے میں مسز آئی ڈی پرکاش نے پرنسپل میریٹ کو بتایا اور یہ مشورہ دیا کہ اگر یہ جج اپنی بیٹیوں کو پڑھانے پر راضی ہو جائے تو دیگر پشتون خاندان بھی اپنی بیٹیوں کو سکول بھیجیں گے۔ یوں ان دو خواتین نے اس جج سے ملاقات کی اور اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوائیں۔ اس کے بعد جج اپنی پانچوں بیٹیوں کو سکول بھیجنے لگے۔
یہ سلسلہ مسز آئی ڈی پرکاش نے چالیس سال تک جاری رکھا، جس کے بعد علم کے زیور سے آراستہ کرنے کی ذمہ داری ان کی بیٹی اور پروفیسر اے۔ ایڈون کی والدہ ایس ایڈون کے نے اٹھا لی۔ مسز ایڈون نے 45 سال اس ذمہ داری کو نبھایا۔ ان کی سب سے منفرد بات یہ کہ ان 45 سالوں میں انہوں نے سکول سے ایک دن بھی چھٹی نہیں کی تاکہ بچیوں کا نقصان نہ ہو۔
کوئی چھٹی نہیں
پروفیسر ایڈون کے مطابق ان کی والدہ نے خود ماں بننے کا فیصلہ بھی تب کیا جب سالانہ چھٹیاں ہوتی تھیں اور اب اس خاندان کی ایک اور بیٹی اور پروفیسر ایڈون کی اہلیہ مسز روزلین ایڈون بھی اسی سکول میں 1988ء سے پڑھاتی آ رہی ہیں۔
انہوں نے بھی 45 سال تک اس سکول میں قوم کی بیٹیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے رواں سال الزبتھ گرلز ہائی سکول سے بطور وائس پرنسپل ریٹائرمنٹ لے لی۔ اس گھرانے اور علم کی روشنی پھیلانے کا سفر 100 سال سے جاری ہے۔
مسز روزلین
مسز روز لین نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا،''اپنی بچیوں کو ان کا حق دینا اور ان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا آسان نہیں تھا۔ الزامات بھی لگے، شک بھری نگاہیں اور رویے بھی برداشت کیے مگر اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ والدین کو راضی کرنے کے لیے بچیوں کی فیس خود ادا کرنے کی پیشکش بھی کرتے تھے۔ اور پھر لوگوں نے بہت اعتماد بھی کیا، اپنی بیٹیوں کی پرورش ہم پر چھوڑی بہت پیار ملا اور آج تک عزت بھی کرتے ہیں‘‘۔
بیرون ملک کا سفر
پروفیسر اے ایڈون نے اپنی ابتدائی تعلیم پشاور میں حاصل کی پھر اس کے بعد شمالی افریقہ میں ملازمت اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1989ء میں وہ واپس پشاور آئے اور پی سی ایس کا امتحان پاس کر کے گورنمنٹ کالج میں ملازمت اختیار کی جہاں وہ کئی برس تک انگریزی پڑھاتے رہے۔
اُس کے بعد مشہور ایڈورڈز کالج میں بھی درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔ پروفیسر ایڈون کے مطابق شمالی افریقہ کے لیے منتخب ہونے کا عمل شروع ہوا تو وہ اس وقت پی اے ایف کالج پشاور میں پڑھا رہے تھے۔
سنہری یادیں
ڈی ڈبلیو سے سنہری تاریخ شیئر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا،''کالج کی لائبریرین نے بتایا کہ کیمبرج والوں کو انگریزی کے استاد درکار ہیں آپ درخواست دے دیں لیکن مجھے امید نہیں تھی کہ میں منتخب ہو جاؤں گا جس کے بعد اسی لائبریرین نے میری درخواست بھیجی پھر مجھے انٹرویو کے لیے بلایا گیا تو وہاں مجھ سمیت 7 ہزار افراد تھے، جس میں 18 کو منتخب کیا جانا تھا۔
مگر میں پھر بھی اسی سوچ میں تھا کہ میں منتخب نہیں ہوں گا مگر وہ دن بھی آیا جب میں سلیکٹ ہو گیا۔‘‘ پروفیسر ایڈون نے کیمبرج میں ملازمت کے ساتھ ساتھ لیڈز یونیورسٹی سے بھی تعلیم حاصل کی ہے۔
علم کا کوئی مذہب نہیں
پروفیسر الون ایڈون کے مطابق 4 خواتین یعنی نانی، والدہ، اہلیہ اور بیٹی کا ان کی کامیابی میں90 فیصد کردار رہا ہے۔ پروفیسر ایڈون کہتے ہیں،''علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ہم نے ہمیشہ تعلیم کا حق ادا کیا۔ میں اقلیتی برادری سے ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان چھوڑ کر کسی دوسرے ملک جاؤں۔بحیثیت استاد اس شعبے نے بہت عزت دی۔ ہر مذہب کے لوگوں نے پیار، عزت اور احترام دیا جس میں سب سے زیادہ مسلمان شاگردوں کی ہے۔‘‘
پروفیسر ایڈون نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا،''بطور مسیحی اس خطے کے لوگوں نے جو مقام دیا وہ کہیں اور نہیں مل سکتا۔ خیبر پختونخوا کے لوگ دنیا کے الٹ چلتے ہیں۔ دوسرے لوگ طاقتور مگر پختونخوا کے لوگ کمزور کے ساتھ کھڑے ہونا جانتے ہیں اور اسی طرز عمل نے مجھے یہاں رہنے پر مجبور کیا اور یہیں کا ہو کر رہ گیا۔‘‘
اس خاندان کا درس و تدریس کا سلسلہ یہاں نہیں رکا۔ پروفیسر ایڈون اور مسز ایڈون کی بڑی بیٹی یمیمہ ایڈون اس وقت کنیرڈ کالج لاہور میں انگریزی ادب کی لیکچرر ہیں جبکہ مائرہ ایڈون تاریخی اسلامیہ کالج سے انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ جبکہ خیبر پختونخوا کی اقلیتی پی ایم ایس آفیسر ہیں۔
پروفیسر اے ایڈون کا اکلوتے بیٹے ڈاکٹر سڈرک ایڈون بھی اپنے خاندان کی خواتین کی طرح اس مشن کا حصہ ہیں اور پشاور کی ایک یونیورسٹی میں شعبہ مینجمنٹ سائنسز میں چیئرمین کے عہدے پر تعینات ہیں۔