1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’قيام امن کی راہ ميں رکاوٹ محض دو درجن ہتھيار‘

عاصم سليم23 اپریل 2016

جنوبی سوڈان ميں باغی رہنما ريک مچار کی آئندہ ہفتے آمد اور پھر يونٹی حکومت ميں شموليت کے ساتھ قيام امن کی اميد تو پائی جاتی ہے تاہم سياسی ماہرين خبردار کرتے ہيں کہ فريقين ميں اب بھی شديد اختلافات پائے جاتے ہيں۔

https://p.dw.com/p/1IbK1
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Patinkin

جنوبی سوڈان ميں قيام امن کی راہ ميں تازہ ترين رکاوٹ فريقين کے درميان اس معاملے پر اختلاف ہے کہ وہ کتنے ہتھيار رکھ سکتے ہيں۔ بين الاقوامی مذاکرات کاروں کی کوششوں کے نتيجے ميں باغی اس پر رضامند ہو گئے تھے کہ ان کے رہنما ريک مچار کی حفاظت کے ليے انہيں بيس مشين گنيں اور بيس راکٹ لانچر رکھنے کی اجازت ہو گی تاہم اس ہفتے جمعرات کی شب تک حکومت صرف سات ہتھياروں کی اجازت دينے پر راضی تھی اور يہی معاملہ تازہ اختلاف کا سبب بنا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کيے جانے کی دھمکی کے بعد ہی جمعے کے روز جوبا حکومت نے بالآخر معاہدہ تسليم کيا۔

باغی رہنما ريک مچار کو اس ہفتے پير کے روز تک دارالحکومت جوبا پہنچ کر نائب صدر کا عہدہ سنبھالنا تھا تاہم وہ مقررہ وقت تک نہيں پہنچ پائے۔ اسی وجہ سے اگست 2015ء ميں طے پانے والا امن معاہدہ خطرے ميں پڑ گيا ہے۔ بعد ازاں اقوام متحدہ کے سيکريٹری جنرل بان کی مون نے مچار پر زور ديا کہ وہ فوری طور پر اپنے ملک واپس جائيں جبکہ امريکا، برطانيہ اور ناروے نے ايک مشترکہ بيان ميں ريک مچار سے مطالبہ کيا کہ وہ ہفتے کے روز تک جنوبی سوڈان پہنچ جائیں۔ ان تمام بين الاقوامی ہدایات اور مطالبات کے باوجود جنوبی سوڈان کے وزير اطلاعات مائيکل ماکوئی نے کہا ہے کہ مچار کی آمد آئندہ پير تک متوقع ہے۔

باغی رہنما ريک مچار
باغی رہنما ريک مچارتصویر: Reuters/G. Tomasevic

جنوبی سوڈان کے ايک صحافی ايلفرڈ تابان کے بقول ڈيل کے حوالے سے فريقين اب بھی شديد شکوک و شبہات کا شکار ہيں تاہم عوام جنگ سے تھک چکے ہيں اور انہيں امن چاہيے۔ بين الاقوامی سفارت کار اس بات کو ناقابل فراموش قرار ديتے ہيں کہ ہزارہا افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والی جنگ کے خاتمے کے ليے ڈيل محض اس ليے تاخير کا شکار ہو سکتی ہے کہ فريقين ہتھيار رکھنے کی تعداد پر اتفاق نہيں کر سکتے۔ سفارت کار اس بات سے بھی پريشان ہيں کہ اگرچہ مچار کی جنوبی سوڈان واپسی امن کی سب سے بہتر اميد ہے تاہم ان کی واپسی کے بعد ملک میں وہی حالات پیدا ہو سکیں گے جو جولائی سن 2013 سے قبل تھا اور پھر ایسی خانہ جنگی شروع ہوئی کہ بہت کچھ تباہ ہو کر رہ گیا۔

جنوبی سوڈان ميں خانہ جنگی دسمبر سن 2013 ميں اس وقت شروع ہوئی تھی جب صدر سلوا کير نے مچار پر ان کا تختہ الٹے کی کوشش کا الزام لگايا تھا۔ بعد ازاں يہ سیاسی تنازعہ نسلی بنيادوں پر تقسيم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کا سبب بنتے ہوئے انتہائی پرتشدد رنگ اختیار کر گیا تھا۔