قیام امن کا منصوبہ ’غیر حقیقی‘ ہے، شامی اپوزیشن
15 نومبر 2015آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں شورش زدہ ملک شام میں قیام امن کی کوششوں کی خاطر ہوئے مذاکرات میں آئندہ چھ ماہ میں منتقلی اقتدار اور اٹھارہ ماہ کے دوران نئے الیکشن پر اتفاق ظاہر کیا گیا ہے۔ ہفتے کے دن منعقد ہونے والے ان مذاکرات میں بیس ممالک سے تعلق رکھنے مندوبین اور اداروں نے شرکت کی۔
ان امن مذاکرات کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بنیادی مقصد یہ ہے کہ یکم جنوری تک شامی اپوزیشن اور دمشق حکومت کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے، جس کے لیے فائر بندی لازمی ہے۔
نیشنل کولیشن نامی شامی اپوزیشن کے ایک رکن انس البدح نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ گو یہ امن مذاکرات کے بعد جاری کیا جانے والا مشترکہ بیان ’غیر واضح‘ ہے لیکن کچھ پیش رفت ضرور ہوئی ہے: ’’فائر بندی اہم پیش رفت ہو گی کیوں کہ اس سے شامیوں کی صعوبتوں میں کمی واقع ہو سکے گی۔ لیکن اہم بات یہ ہو گی کہ اس جنگ بندی کو نافذ کیسے کیا جائے۔‘‘
دوسری طرف شامی نیشنل کونسل کے ایک اور رکن سمیر ناشا نے ویانا مذاکرات میں طے پانے والے منصوبے کو ’باعث پریشانی اور غیر حقیقی‘ قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ یہ منصوبہ قابل عمل نہیں ہے اور اس سے شام میں سیاسی تبدیلی ممکن نہیں ہو سکی گی ۔
ناشا نے کہا کہ شام میں گزشتہ کچھ سالوں سے جو کچھ ہوا ہے اس کے بعد یہ توقع کیسی کی جا سکتی ہے کہ لوگ سب اختلافات کو بھول جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ شام میں سیاسی تبدیلی سے قبل اس کی بحالی و تعمیر نو کے لیے طویل عرصہ درکار ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ صاف و شفاف انتخابات کرانا ایک دور کی بات ہو گی۔
یہ امر اہم ہے کہ ویانا مذاکرات میں مندوبین میں اس بات پر بھی اتفاق رائے ہو گیا تھا کہ شامی صدر بشار الاسد آئندہ انتخابات میں حصہ نہ لینے دیا جائے تاہم ایران نے کہا ہے کہ شام میں قیام امن کے اس منصوبے سے یہ شرط نکال دی جانا چاہیے۔ ہفتے کے دن ویانا میں منعقد ہوئے شامی امن مذاکرات کے دوسرے دور میں ایرانی مندوبین بھی شامل ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ 2011ء سے شام میں شروع ہونے بحران کے بعد سے شامی اپوزیشن اور مغربی ممالک کا اصرار ہے کہ صدر بشار الاسد اقتدار سے الگ ہو جائیں۔ تاہم اسد کے حامی ممالک روس اور ایران کا کہنا ہے کہ اسد کو اقتدار سے الگ کرنے کے نتیجے میں نہ صرف شام بلکہ علاقائی سطح پر عدم استحکام پھیل سکتا ہے۔