لاوارث مہاجر بچوں کے ساتھ يورپ کا سلوک ’قابل افسوس‘
26 جولائی 2016يورپی حکومتوں کے غير منظم رد عمل کے نتيجے ميں اپنے والدين کے بغير تنہا جنگ و جدل سے فرار ہونے والے لاوارث بچے انسانوں کے اسمگلروں کے ہاتھ لگ رہے ہيں۔ يہ انکشاف برطانوی ارکان پارليمان کے ايک گروپ نے منگل کے روز کيا ہے۔ ’ہاؤس آف لارڈز‘ کی يورپی يونين کميٹی کی جانب سے اس بارے ميں جاری کردہ ايک باقاعدہ رپورٹ ميں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومتوں کی جانب سے بالغوں کے بغير سفر کرنے والے بچوں کی ذمہ داری نہ اٹھانے پر تنقيد کی گئی ہے۔
گزشہ برس يعنی سن 2015 ميں بالغ افراد کے بغير تنہا سفر کرنے والے تقريباً نوے ہزار بچوں نے اٹھائيس رکنی يورپی يونين کے مختلف ممالک ميں پناہ لی۔ يورپی بلاک کی ڈيٹا سروس ’يورو اسٹيٹ‘ کے مطابق يہ تعداد سن 2014 کے مقابلے ميں تين گنا زيادہ تعداد ہے۔ پناہ کے ليے تنہا سفر کرنے والے بچوں ميں اکثريت افغان اور شامی بچوں کی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق خطرناک سفر طے کر کے يورپی ملکوں تک پہنچنے والے زيادہ تر بچے در بدر کی ٹھوکريں کھانے کے بعد يا تو سابقہ جيلوں ميں منتقل کر ديے گئے يا باڑ والے مہاجر کيمپوں ميں يا پھر کئی لاپتہ ہو گئے۔
برطانوی پارليمان کے ايوان بالا کی ايک رکن اور اس حوالے سے کی جانے والی تحقيق کے پينل کی سربراہ اُوشا پراشار کا کہنا ہے، ’’ايسا معلوم ہوتا ہے کہ يہاں ہر سطح پر شک کرنے کی ايک روایت سی ہے، جو يہ سوال اٹھاتی ہے کہ آيا بچے سچ بول رہے ہيں۔‘‘ پراشار کے بقول يہ ضرور ہے کہ يہ بچے بالغوں کے بغير سفر کرنے والے مہاجر بچے ہيں تاہم سب سے پہلے يہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ يہ بہرحال بچے ہی ہيں۔‘‘ محققہ نے يہ باتيں تھامسن روئٹرز فاؤنڈيشن کو ديے اپنے ايک انٹرويو ميں کہيں۔
يورپی يونين کی انٹيليجنس ايجنسی ’يورو پول‘ کے اعداد و شمار کے مطابق يورپ آمد کے بعد اب تک تقريباً دس ہزار بچے لاپتہ بھی ہو چکے ہيں۔ برطانوی ارکان پارليمان کی اس رپورٹ ميں لندن حکومت پر تنقيد کی گئی ہے کہ وہ ان بچوں کی منتقلی کی سلسلے ميں ديگر يورپی رياستوں کے ساتھ تعاون ميں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی آئی ہے۔ رپورٹ ميں کہا گيا ہے، ’’يورو پول کی جانب سے تازہ اعداد و شمار کے اجراء کے بعد ہنگامی کارروائی نہ کرنے پر ہم يورپی يونين کی رياستوں، بشمول برطانيہ، کی شديد مذمت کرتے ہيں۔‘‘
يہ امر اہم ہے کہ جہاں متعدد ممالک نے مہاجر بچوں کو اپنے ہاں پناہ دينے کے وعدوں پر عملدرآمد نہيں کيا وہيں جرمنی اور سويڈن چند ايسے ممالک ہيں جنہوں نے لاوارث بچوں کی حفاظت اور ان کے انضمام کے ليے باقاعدہ انتظامات کيے۔ رپورٹ ميں البتہ يہ بھی کہا گيا ہے کہ مہاجر بچوں کے حوالے سے جمع کردہ اعداد و شمار محدود ہيں اور ممکن ہے کہ بہت سے بچوں کی گنتی ايک سے زائد مرتبہ بھی ہو چکی ہو۔ اس سبب حکام کو ان تک پہنچنے ميں دشوارياں پيش آ رہی ہيں اور وہ بچے جرائم پيشہ گرہوں کے شکنجوں ميں بھی پھنس سکتے ہيں۔