لاڑکانہ میں مشتعل افراد نے ہندو کمیونٹی سینٹر نذر آتش کر دیا
16 مارچ 2014مقامی پولیس افسر انور لغاری نے اتوار کے روز خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ مندر کو آگ لگائے جانے کا واقعہ رات میں پیش آیا۔
پولیس کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا، جب کچھ افراد کے مطابق انہوں نے ایک ہندو کے گھر کے قریب کچرے دان میں قرآن کے پھٹے ہوئے صفحات دیکھے۔ پولیس کے مطابق اس کے بعد 200 افراد کے ایک مشتعل جتھے نے قریبی مندر سے متصل ہندوکمیونٹی سینٹر پر حملہ کر دیا۔
لغاری کے مطابق واقعے کے بعد پولیس نے جائے واقعہ کو گھیر لیا ہے، جب کہ آگ کی وجہ سے عمارت کو نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس نے قرآن کے صفحات بھی برآمد کیے ہیں۔ پاکستان میں ہندو کمینٹی کے تنظیم نے قران کی بے حرمتی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جس شخص نے کام کیا ہے وہ اصل میں اُن کی کمیونٹی سے تعلق نہیں رکھتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان توہین مذہب کے قوانین کی وجہ سے دنیا بھر میں تنقید کی زد پر رہتا ہے، جہاں ہر سال تشدد کے ایسے متعدد واقعات سامنے آتے ہیں، جن کی اساس توہین مذہب پر ہوتی ہے۔ پاکستانی قوانین کے تحت توہین مذہب کے جرم میں کسی شخص کو سزائے موت تک دی جا سکتی ہے، تاہم سزائے موت سنائے جانے والے افراد میں آج تک کسی کی سزا پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ مبصرین کاکہنا ہے کہ ملک میں عوامی سطح پر ان قوانین کو برقرار رکھنے کے لیے سخت دباؤ کی وجہ سے اب تک کوئی حکومت ان قوانین پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنقید کے باوجود انہیں تبدیل کرنے کی ہمت نہیں کرتی ہے۔
اس سے قبل قرآن کی توہین سے متعلق یہ قانون اس وقت ملکی سطح پر بحث کا موضوع بنا تھا، جب ایک کم عمر مسیحی بچی رمشا مسیح پر قرآن کی بے حرمتی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ بعد میں عدالت نے ذہنی بیماری کی شکار اس بچی کو بری کر دیا تھا۔