لاکھوں انسانوں کا ’معاون قاتل‘: آؤشوِٹس کا ’منشی‘ عدالت میں
20 اپریل 2015ترانوے سالہ اوسکار گرونِنگ کا تعلق ہٹلر کے ایس ایس دستوں سے تھا اور وہ آؤشوِٹس کے اذیتی کیمپ میں کام کرتا تھا۔ اُس وقت گرونِنگ کا کام وہاں پہنچنے والے قیدیوں کے سامان کی تلاشی لینا اور اس میں سے رقم کے ساتھ ساتھ قیمتی سامان علیحدہ کرنا تھا۔ ہٹلر کی فوج کے اس سابق اہلکار کا سن دوہزار پانچ میں مختلف جرمن اخبارات کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’جنوری 1943ء کی ایک رات میں نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ آؤشوِٹس میں کس طرح یہودیوں کو زہریلی گیس کے ذریعے ہلاک کیا گیا۔ میں نے گیس چیمبر میں لوگوں کو خوف کی حالت میں چیختے ہوئے سنا۔‘‘
گرونِنگ ستمبر 1942ء سے لے کر اکتوبر 1944ء تک اس اذیتی کیمپ میں تعینات رہا تھا۔ بنیادی طور پر اس سابق نازی اہلکار کا کام اس اذیتی کیمپ میں پہنچنے والے جلاوطن قیدیوں سے حاصل کردہ رقوم، قیمتی سامان اور زیورات کو سنبھالنا تھا۔ اسی وجہ سے گرونِنگ کو ’’آؤشوِٹس کا منشی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اوسکار گرونِنگ خود کو بے گناہ سمجھتا ہے۔ سن دو ہزار پانچ ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں اس کا کہنا تھا، ’’میں نے کسی کا بھی قتل نہیں کیا۔‘‘ اب اس انٹرویو کے دس برس بعد گرونِنگ کے خلاف عدالتی کارروائی کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ گرونِنگ کے خلاف مقدمے کی سماعت کا آغاز منگل اکیس اپریل سے ہو رہا ہے اور جرمنی میں یہ شاید نازیوں کے خلاف آخری بڑا مقدمہ ہو۔
اوسکار گرونِنگ جرمن شہر لیونیبُرگ کے ایک نواحی گاؤں میں رہائش پذیر ہے، اسی وجہ سے اس کے خلاف اس مقدمے کی سماعت لیونیبُرگ کی ایک ضلعی عدالت میں کی جا رہی ہے۔ ملزم کے خلاف ثبوت ’’ہنگیرین ایکشن‘‘ کے حوالے سے پیش کیے جائیں گے۔ ’’ہنگیرین ایکشن‘‘ سولہ مئی سے گیارہ جولائی 1944ءکے دروان پیش آنے والے واقعات کو کہا جاتا ہے۔ اس عرصے کے دوران ہٹلر کے ایس ایس دستوں نے ہنگری سے تقریباﹰ چار لاکھ پچیس ہزار یہودیوں کو جرمن فوج کے زیر قبضہ پولینڈ میں واقع آؤشوِٹس کے اذیتی کیمپ میں پہنچایا تھا جبکہ ان میں سے کم از کم تین لاکھ انسانوں کو وہاں کے بدنام زمانہ گیس چیمبرز میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اوسکار گرونِنگ بھی اُس وقت وہیں کام کرتا تھا۔
جرمنی میں نازی دور کے جنگی جرائم کی چھان بین کرنے والے وفاقی ادارے نے گزشتہ برس آؤشوِٹس کے سابقہ نازی اذیتی کیمپوں میں فرائض انجام دینے والے تیس ایسے افراد کی فائلیں یہ کہہ کر وفاقی دفتر استغاثہ کو بھجوائی تھیں کہ ان مبینہ ملزمان پر فرد جرم عائد کی جانی چاہیے۔ ان میں سے کئی اب تک انتقال کر چکے ہیں اور جو زندہ ہیں، وہ زیادہ تر اپنے بڑھاپے یا خرابیء صحت کی وجہ سے اس قابل نہیں کہ ان کے خلاف عدالتی کارروائی مکمل کی جا سکے۔
مقبوضہ پولینڈ میں آؤشوِٹس بِرکیناؤ کے نازی اذیتی کیمپ میں مجموعی طور پر 1.3 ملین سے زائد انسانوں کو قتل کیا گیا تھا، جن میں اکثریت یورپی یہودیوں کی تھی۔ یہ اذیتی کیمپ سن 1940ء میں قائم کیا گیا تھا، جسے ستائیس جنوری 1945ء کے روز پیش قدمی کرتے ہوئے سوویت یونین کے فوجی دستوں نے آزاد کرایا تھا۔