لاکھوں تارکین وطن اپنے اہل خانہ کو جرمنی بلانے کے حق دار
6 اپریل 2017اس اخباری رپورٹ سے رواں برس جرمنی میں ہونے والے قومی انتخابات سے صرف چھ ماہ قبل ایک نئی سماجی اور سیاسی بحث جنم لے سکتی ہے۔
جرمنی میں شائع ہونے والے کثیر الاشاعت جریدے ’بِلڈ‘ نے حکومتی دستاویزات کے حوالے سے بتایا ہے کہ سن 2015ء اور 2016 ء میں چار لاکھ اکتیس ہزار تین سو چھیہتر شامی باشندوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں، جن میں سے دو لاکھ سڑسٹھ ہزار پانچ سو کو اب اپنے خاندان کے دیگر افراد کو جرمنی بلانے کا حق حاصل ہو چکا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حالیہ کچھ عرصے میں جرمنی میں مہاجرین اور مسلم مخالف جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی کی مقبولیت میں خاصی کمی دیکھی گئی ہے، تاہم اس اخباری رپورٹ کے بعد جنم لینے والی بحث اس جماعت کو ایک مرتبہ پھر تقویت دے سکتی ہے۔
جرمنی میں رواں برس 24 سمتبر کو عام انتخابات منعقد ہونا ہیں اور آلٹرنیٹیو فار جرمنی عمومی طور پر مہاجرین ہی کے معاملے کو عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے ایک بنیادی نکتے کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے۔
اس جماعت کے سینیئر رکن الیگزانڈر گاؤلانڈ نے اس بڑی تعداد میں مہاجرین کو اپنے خاندان کے دیگر افراد کو جرمنی بلانے کا قانونی حق حاصل ہو جانے پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے ’مکمل پاگل پن‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’اربوں کے اربوں یورو ٹیکس کے پیسے ختم ہو رہے ہیں اور جرمنی کا فلاحی ریاست کا نظام ایک گہری کھائی کی جانب بڑھ رہا ہے۔‘‘
اس اخباری رپورٹ پر جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور پناہ گزین (BAMF) اور وزارت داخلہ کی جانب سے کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیا۔
سن 2016 میں جرمن حکومت نے مہاجرین کے لیے اپنے خاندانوں کے دیگر افراد کو جرمنی بلانے کے لیے ’فیملی ری یونین ویزا‘ کے اجرا پر دو برس کی پابندی عائد کر دی تھی، تاہم ایسے مہاجرین جن کے قریبی رشتہ داروں کو ان کے آبائی ممالک میں جنگ، تشدد یا غیرانسانی سلوک کا سامنا ہو، اس پابندی سے مبرا کر دیا گیا تھا۔