لاہور: آٹھ افراد کی ہلاکت، وزیراعلیٰ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
17 جون 2014لاہور میں صورتحال ابھی تک کشیدہ ہے۔ منہاج القرآن سیکریٹیریٹ کے باہر اس وقت بھی ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے سینکڑوں کارکن موجود ہیں۔ اس علاقے میں گاڑیاں کے ٹوٹے ہوئے شیشے اور جگہ جگہ ملبے کے ڈھیردکھائی دے رہے ہیں۔ یہاں موجود واقعے کے ایک عینی شاہد عامر حسین نے بتایا کہ علی الصبح شروع ہونے والے اس آپریشن میں پولیس نے براہ راست فائرنگ کی اور عام شہریوں پر آنسو گیس کے گولے بھی برسائے۔
اس علاقے کے ایک دوکاندار ساجد نے بتایا کہ پولیس نے گزشتہ رات انہیں سختی سے علاقہ چھوڑے پر مجبور کیا اور بعد ازاں یہ آپریشن شروع ہو گیا۔ اگرچہ صوبے کے وزیراعلی شہباز شریف نے کہا ہے کہ انہیں اس واقعے کی بروقت اطلاع نہیں مل سکی۔ تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ واقع جس جگہ پیش آیا وہ پنجاب کے وزیر اعلی کے گھر سے ڈیڑھ دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
اوکاڑہ سے آئی ہوئی ایک خاتون عابدہ مسعود نے کہا کہ حکومت اپنے خلاف ممکنہ تحریک سے خوفزدہ ہو چکی ہے۔ اس واقعے کے بعد بھی ہم اپنے قائد کی کال پر عمل کریں گے۔
اس واقعے کے فورا بعد مسلم لیگ ’ق‘ کے رہنما چوھدری پرویز الہی نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے گھر کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے وزیراعلی شہباز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ ادھر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی شہباز شریف، وزیر قانون اور انسپکٹر جنرل پولیس کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب پنجاب کے وزیر اعلی نے اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں اس واقعے کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ ان کے بقول اگر ان کا اس واقعے میں ملوث ہونا ثابت ہو جائے تو وہ خود ہی مستعفی ہو جائیں گے۔
کنیڈا سے ویڈیو لنک سے خطاب کرتے ہوئے علامہ طاہر القادری نے بھی شریف برادران اور ان کی کابینہ کے بعض ارکان کو اس واقعے کے حوالے سے مورد الزام ٹہرایا ہے۔ ان کے مطابق حکومت انہیں فوج کی حمایت کرنے کی وجہ سے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنا رہی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ علاہ طاہرالقادری حکومت مخالف تحریک کی قیادت کرنے کے لیے تیئیس جون کو پاکستان پہنچنے والے ہیں۔ اس سے پہلے ان کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کے حوالے سے بھی حکومت نے کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ طاہرالقادری اور حکومت مخالف قوتوں کو خفیہ ہاتوں کی حمایت حاصل ہے اوربعض تجزیہ نگار موجودہ صورت حال کو ملک میں سول اور ملٹری تعلقات میں در آنے والے مسائل کے تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں۔
پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ منہاج القرآن سیکریٹیریٹ میں اسلحے اور مسلح افراد کی موجودگی پر کارروائی کی گئی اور ایسا کرنا قانون کی حکمرانی کے لیے ضروری تھا۔ ادھر قومی اسمبلی میں بھی لاھور کے واقعے پر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے احتجاج کیا گیا جبکہ متحدہ قامی موومنٹ نے اس واقعے کے خلاف کل بدھ کے روز ملک بھر میں یوم سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔