1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور، انسانی اعضاء فروخت کرنے والا گروہ پکڑا گیا

14 جنوری 2023

اس گروہ نے زیر زمین ایک لیبارٹری بنا رکھی تھی، جس میں اعضاء نکالنے کے لیے آپریشن کیے جاتے تھے۔ اس لیبارٹری سے ایک بچہ بھی ملا ہے، جس کا ایک گردہ نکالا جا چکا تھا۔ متاثرہ بچہ چند دن پہلے لاپتا ہو گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/4MBsN
Symbolbild Organhandel
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان کے شہر لاہور میں گزشتہ روز انسانی اعضاء اسمگل کرنے والا ایک گروہ پکڑا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق اس کارروائی کے دوران انہیں زیر زمین بنائی گئی لیبارٹری سے ایک 14 سالہ بچہ بھی ملا ہے، جو چند دن پہلے لاپتا ہو گیا تھا۔ اس بچے کا ایک گردہ بھی نکالا جا چکا تھا۔

یہ گروہ نوجوان اور معاشی طور پر کمزور افراد کو منافع بخش ملازمتوں اور پرکشش معاوضے کا لالچ دے کر انہیں جسمانی اعضا خاص طور پر گردے بیچنے پر مجبور کرتا تھا۔ متاثرین کو ایک گردے کے عوض نو لاکھ پاکستانی روپے یعنی تقریباﹰ چار ہزار امریکی ڈالر تک دینے کا وعدہ کیا جاتا تھا۔

پنجاب پولیس کے ترجمان ریحان انجم نے اپنے بیان میں  اے ایف پی کو بتایا، ''ہم نے شواہد اور ثبوت اکھٹے کرنے کے بعد ہی پتہ چلایا کہ اس متاثرہ لڑکے کی گمشدگی کی پیچھے اعضا اسمگل کرنے والے کسی گروہ کا ہاتھ ہے‘‘۔

چھ افراد کو گرفتار کر لیا گیا

پولیس اہلکاروں کے مطابق بازیاب شدہ لڑکے نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسے بے ہوش کیا گیا تھا اور ہوش میں آنے پر اس نے اپنے ساتھ والے اسٹریچر پر ایک عرب باشندے کو پایا۔اس لڑکے کے بیان کے بعد پولیس یہ خدشہ بھی ظاہر کر رہی ہے کہ اس گروہ سے اعضا خریدنے والے تمام گاہک غیر ملکی ہو سکتے ہیں۔ اس گروہ کے متاثرین کو راولپنڈی میں اعضاء کی پیوند کاری کے لیے استعمال ہونے والی ایک میڈیکل ٹیسٹنگ لیب میں منتقل کیا گیا ہے۔

پاکستان میں انسانوں کی اسمگلنگ: اغوا اور پھر جبری مشقت

پاکستان میں اس طرح کی خفیہ طبی لیبارٹریوں میں اکثر مناسب طبی آلات اور سہولیات کے فقدان کے باعث متاثرہ افراد پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور کئی افراد کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ متاثرہ لڑکے کے والد نے لاہور میں نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''میں صرف شکر گزار ہوں کہ پولیس نے میرے بیٹے کو زندہ بچا لیا ورنہ وہ لوگ اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ چکے تھے‘‘۔

پولیس کے مطابق ابھی تک شریک جرم ڈاکٹروں اور سرجنوں کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ پاکستان نے 2010ء میں انسانی اعضاء کی تجارت کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس جرم کے لیے  10 سال تک قید اور جرمانے کی سزائیں بھی مختص کی تھیں۔ ان قوانین کا مقصد بیرون ملک مخیر افراد کو اعضاء کی با آسانی فروخت کو روکنا تھا تاہم قانون سازی کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے۔

ر ب/ ا ا (اے ایف پی)