لبنان، شامی مہاجرین عدم مساوات کے خوف کے سائے میں
19 جولائی 2016وہ اس پریشانی کے عالم میں میونسپل کرفیو کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا تھا، جو شامی مہاجرین کو سورج ڈوبنے سے سورج دوبارہ نکلنے تک کے وقت کے درمیان گھروں تک محدود کرنے کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔
ابوعدنان کا کہنا ہے، ’’انہوں نے مجھے روک کر سوال پوچھنا شروع کر دیے۔ تم کہاں جا رہے ہو، کیوں جا رہے ہو۔‘‘
بعدازاں پولیس نے اسے جانے دیا، مگر کلینک تک اس کا پیچھا کرتے رہے اور اسے کہا گیا کہ ڈاکٹر کے بعد وہ سیدھا گھر جائے۔
شامی مہاجرین کے ساتھ لبنانی حکام کے سلوک کی یہ ایک مثال ہے، مگر انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ ان مہاجرین کے خلاف لبنان بھر میں نسلی اور قومیتی بنیادوں پر تفریق مسلسل بڑھ رہی ہے اور یہ غیرمساویانہ رویہ ان پریشان حال مہاجرین کے لیے مزید پریشانیوں کا باعث بن رہا ہے۔
لبنان میں اس وقت قریب ایک ملین شامی مہاجرین موجود ہیں، جو اس ملک کی مجموعی آبادی کا ایک چوتھائی ہے۔ اس ملک کو اپنے ہمسایہ ملک شام میں جاری خانہ جنگی کے بعد اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے پر عالمی برادری کی جانب سے مسلسل داد و تحسین سے بھی نوازا جاتا ہے۔
مگر مہاجرین کے اس بڑے بہاؤ کے سبب وسائل پر پڑنے والے دباؤ کی وجہ سے شامی مہاجرین کے حوالے سے لبنانی شہریوں میں برداشت میں خاصی کمی دیکھی جا رہی ہے۔ لبنانی شہری اب ان مہاجرین کو خود پر ایک بوجھ تصور کرنے لگے ہیں اور یہی معاملہ عدم برداشت کو پروان چڑھا رہا ہے۔
بعض شہروں نے یہ معاملات اب خود اپنے ہاتھوں میں لے لیے ہیں اور اب یہ شہری علاقے شام سے صبح تک ان مہاجرین کو گھر سے باہر نہ نکلے دینے کے لیے کرفیو کا نفاذ کر دیتے ہیں۔ خبر رساں اداروں کے مطابق ان مہاجرین کے گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں اور کبھی کبھی تو انہیں کرفیو کی خلاف ورزی کرنے پر سزا کے طور پر گلی کی صفائی پر لگا دیا جاتا ہے۔
ابوعدنان کے مطابق، لبنان میں رفتہ رفتہ شامی مہاجرین کی زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ شہری انتظامیہ مہاجرین کے لیے کچھ نہیں کر رہی بلکہ کچھ مہاجرین کو تو ان کے عارضی گھروں ہی سے نکال کر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور کیا جا چکا ہے۔