ليبيا اور سی آئی اے کے پرانے قريبی روابط کا انکشاف
5 ستمبر 2011سن 1990 کے عشرے ميں جرمن خفيہ اداروں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے ميں ليبيا سے اطلاعات حاصل کی تھيں۔ جرمنی کے خفيہ اداروں کے سابق رابطہ کار بيرنڈ شمٹ باؤر نے کہا کہ ان اطلاعات کی مدد سے جرمنی کو لاحق دہشت گردی کے کئی خطرات کا تدارک ممکن ہوا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظيم ايمنسٹی انٹر نيشنل کے مطابق کہ طرابلس ميں ليبيا کے سابقہ خفيہ ادارے سے ملنے والی دستاويزات سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ قذافی کے خفيہ اداروں کے حکام اور مغربی ممالک کے خفيہ اداروں کے درميان بہت قريبی تعاون تھا۔ ان دستاويزات سے يہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سی آئی اے دہشت گردی کے شبے ميں گرفتار کيے جانے والے افراد کو دنيا کے دوسرے ممالک کے علاوہ پوچھ گچھ کے ليے ليبيا بھی لے جاتی تھی۔ انسانی حقوق کی تنظيم ہيومن رائٹس واچ کے پيٹر بوکئيرٹ کا کہنا ہے کہ يہ مسلمان شدت پسند تھے۔ اگر سی آئی اے چاہتی تو خود بھی اُن سے پوچھ گچھ کر سکتی تھی، ليکن اُس نے انہيں ليبيا کی خفيہ سروس کے حوالے کرنے کو ترجيح دی حالانکہ يہ خفيہ سروس امريکی وزارت خارجہ ميں اذيت رسانی اور قيديوں پر زيادتياں کرنے والی سروس کی حيثيت سےجانی پہچانی تھی۔
پيٹر بوکئيرٹ کو ليبيا کے خفيہ ادارے سے ملنے والی دستاويزات کی ابتدائی چھان بين سے جس بات پر خاص طور سے حيرت ہوئی وہ مغربی خفيہ اداروں اور ليبيا کے خفيہ ادارے کے درميان پيغامات کے تبادلے ميں اختيار کيا جانے والا انتہائی دوستانہ انداز تھا، جو عام دفتری اور رسمی انداز سے کہيں زيادہ قريبی تھا: مثلاً قذافی کی خفيہ سروس کے سربراہ موسٰی کوُسہ کی طرف سے امريکی خفيہ اداروں کے نمائندوں کے ہاتھوں بھيجے جانے والے سنگتروں اور کھجوروں کا شکريہ ادا کيا گيا اور انہيں ’ڈئير مسٹر کوُسہ‘ کہہ کربھی مخاطب کيا گيا: ’’ايک طرف تو ان پيغامات کا خالص رسمی انداز ہے: امريکی خفيہ سروس ليبيا کی خفيہ سروس کو وہ سوالات تک بھی بھيجا کرتی تھی، جو اُنہيں دہشت گردی کے شبے ميں زير حراست افراد سے کرنا ہوتے تھے اور دوسری طرف بہت دوستانہ انداز گفتگو بھی اختيار کيا جاتا تھا۔‘‘
ان دستاويزات سے معلوم ہوتا ہے کہ سی آئی اے کے اہلکار بھی اس پوچھ گچھ ميں شريک ہوتے تھے۔ سی آئی کے علاوہ دوسرے مغربی ممالک کے خفيہ اداروں، مثلاً برٹش ايم آئی 16 کے بھی ليبيا ميں خفيہ اداروں کے حکام سے قريبی روابط تھے۔
رپورٹ: ہانس ميشائيل ايہل، قاہرہ / شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک