ليبيا: قذافی افواج کی پيش قدمی جاری ہے
16 مارچ 2011ليبيا کے شہر بن غازی ميں، جو معمر قذافی کے خلاف بغاوت کرنے والوں کا گڑھ ہے، لاؤڈ اسپيکروں سے اب بھی آزادی کے نغمے گونج رہے ہيں ليکن وہ گاڑياں اب نظر نہيں آرہی ہيں، جن ميں مسلح باغی ايک دو دن پہلے تک اپنے سرخ،سياہ اور سبز رنگ کے پرچم لہراتے ہوئے سڑکوں پر گشت کرتے رہتے تھے۔ شہر ميں اب سب ہی اس کے قائل نہيں معلوم ہوتے کہ باغی، قذافی کی حکومت کا تختہ الٹنے ميں کامياب ہو جائيں گے۔ ليکن باغيوں ميں سے کوئی بھی يہ تسليم نہيں کرنا چاہتا کہ قذافی کی فوج انہيں پيچھے دھکيلنے ميں کامياب ہو رہی ہے۔اس کے بجائے ميدان ميں ڈٹے رہنے کے نعرے لگائے جارہے ہيں جنہيں بن غازی کے نوجوان اپنا رہے ہيں۔
ہر شخص کويہ معلوم ہے کہ اگر قذافی کی فوج بغاوت کو کچلنے ميں کامياب ہوگئی توباغی سخت انتقامی کارروائيوں کا نشانہ بن سکتے ہيں۔ سب ہی يہ جانتے ہيں کہ بن غازی اور ارد گرد کے دوسرے علاقوں ميں قذافی کے حامی بھی ہيں جنہوں نے پچھلے دنوں الجزيرہ ٹی وی کے ايک کيمرہ مين کو گولی ماردی تھی۔ ليکن اُن کی نظريں خاص طور پر باغيوں پر لگی ہوئی ہيں۔
ليبيا ميں باغی، ملک ميں غير ملکی فوج کی موجودگی کے خلاف ليکن قذافی کی فضائی فوج پر غير ملکی حملوں کے حق ميں ہيں۔ ليبيا کی فوج کا ايک بيان سرکاری ٹيلی وژن پر پڑھا گيا جس ميں کہا گيا کہ بن غازی کے لوگوں کے تحفظ کے لئے فوجی کارروائی کی جارہی ہے۔ يہ بھی کہا گيا کہ فوج انتقام نہيں لے گی اور اپنے ہتھيار فوج کے حوالے کردينے اور مزاحمت نہ کرنے والوں کو معاف کرديا جائے گا۔ بن غازی کے شہريوں کا کہنا ہے کہ انہيں سڑکوں پر پمفلٹ پڑے ملے ہيں جن ميں کہا گيا ہے کہ اگر وہ لڑائی سے باز آجائيں تو انہيں سزا نہيں دی جائے گی۔
سرکاری فوج کے حملے کی زد ميں آئے شہر اجدابيا سے ايک سابق باغی نے ٹيليفون پر بتايا کہ شہر فوج کے کنٹرول ميں ہے اور وہ اور اس کے ساتھی اپنا اسلحہ قذافی کی فوج کے حوالے کرچکے ہيں۔ اجدابيا پر سرکاری فوج کے قبضے سے اُسے اس علاقے ميں، جہاں دوسری عالمی جنگ ميں فيلڈ مارشل منٹگمری کی قيادت ميں برطانوی فوج اور جنرل روميل کی سرکردگی ميں جرمن فوج کے درميان گھمسان کی لڑائی ہوئی تھی، واضح جنگی برتری حاصل ہوگئی ہے۔
ليبيا کی سرکاری فوج نے آج مسراطا پر حملہ شروع کرديا، جو باغيوں کے آخری ٹھکانوں ميں سے ايک ہے۔
برطانيہ، فرانس اور عرب ليگ کی طرف سے لبنان نے سلامتی کونسل ميں ايک قرارداد پيش کی ہے جس ميں ليبيا پر نو فلائی زون قائم کرنے اور دوسرے اقدامات کا مطالبہ کيا گياہے ليکن اس قرارداد کو مزاحمت کا سامنا ہے۔ چين اور روس نو فلائی زون کے مخالفوں کی قيادت کررہے ہيں۔ وہائٹ ہاؤس کے ايک ترجمان کارنی نے نو فلائی زون قائم کرنے کے سلسلے ميں اوباما حکومت کی ہچکچاہٹ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ امريکی عوام يہ نہيں چاہيں گے کہ اُن کا صدر نتائج کے محتاط جائزے کے بغيرکسی يکطرفہ امريکی فوجی اقدام کا حکم دے دے۔
اٹلی کے وزير خارجہ فرانکو فراتينی نے آج غير ملکی طاقتوں کو ليبيا ميں فوجی مداخلت سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ نہيں ہونی چاہيے، ملک کا مشرقی حصہ تقريباً مکمل طور پر قذافی کے قبضے ميں آچکا ہے، اور اُن کے خيال ميں عالمی برادری ليبيا ميں فوجی مداخلت نہيں کرسکتی اور نہ ہی اُسے ايسا کرنا چاہيے۔انہوں نےيہ بھی کہا کہ يہ جانتے ہوئے کہ يورپ، جی آٹھ اور نيٹو ميں اس سلسلے ميں اختلاف رائے ہے، اٹلی ليبيا کے خلاف کسی اتحاد ميں حصہ نہيں لے گا۔ انہوں نے کہا کہ ليبيا کے بارے ميں مغربی ممالک کے طرزعمل سے،تيل کی دولت سے مالا مال اس ملک ميں چين کے لئے وسيع اقتصادی مواقع کی راہ کھل گئی ہے۔
ليبيا کی سابق نوآبادياتی طاقت اور اس کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی اٹلی سفارتی لحاظ سے ليبيا کے بارے ميں محتاط ہے ليکن اُس نے قذافی پر پابنديوں کی حمايت کی ہے۔
رپورٹ: بيورن بلاشکے، بن غازی/ شہاب احمد صديقی
ادارت: امجد علی