لڑکیاں اسکول نہ جاسکیں اس لیے انہیں زہر دیا گیا، ایرانی وزیر
27 فروری 2023ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے نائب وزیر صحت یوسف پناہی کے حوالے سے اتوار کے روز کہا کہ اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ لڑکیوں کو زہر جان بوجھ کر دیا گیا ہے۔
شیعہ مسلمانوں کے لیے مذہبی لحاظ سے اہمیت کے حامل شہر قم میں گزشتہ نومبر کے بعد سے ہی اسکول جانے والی سینکڑوں نوعمر طالبات سانس میں زہر کی بیماری سے پریشان ہیں۔ ان میں سے بہت سی لڑکیوں کا ہسپتالوں میں علاج بھی جاری ہے۔
ایران کے نائب وزیر صحت یوسف پناہی نے کہا کہ کچھ لوگ یہ حرکت اس لیے کر رہے ہیں تاکہ لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ بند ہو جائے۔ انہوں نے کہا، "قم کے اسکولوں میں متعدد طالبات کو زہر دیے جانے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ اسکول اور بالخصوص لڑکیوں کے اسکول بند ہو جائیں۔"
’حجاب کو نظر انداز کیا تو تمہارے والد جنت ميں نہيں جائيں گے‘
ایک پریس کانفرنس کے دوران یوسف پناہی نے کہا، "یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جس کیمیاوی مادے کو طالبات کو زہر دینے کے لیے استعمال کیا گیا تھا وہ جنگ میں استعمال ہونے والے کیمیکلس نہیں ہیں اور جو طالبات اس سے متاثر ہوئی ہیں انہیں شدید علاج کی ضرورت نہیں پڑی۔ جو کیمیاوی مادے پائے گئے ہیں ان میں سے بیشتر قابل علاج ہیں۔"
اتوار کو زہر دینے کا ایک اور واقعہ پیش آیا
زہر دینے کے اس معاملے میں اب تک کسی کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔
پارلیمان کی صحت سے متعلق کمیٹی کے ایک رکن ہمایوں سامع نجف آبادی نے بھی ایک نیوز ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ قم اور بروجرد کے اسکولوں میں طالبات کو زہر جان بوجھ کر دیے گئے تھے۔ حالانکہ اس سے قبل وزیر تعلیم یوسف نوری نے طالبات کو زہر دیے جانے کی خبروں کو "افواہ" قرار دیا تھا۔
کیا ایران ’حجاب قانون‘ میں تبدیلی کرنے جا رہا ہے؟
تاہم لرستان کے نائب گورنر ماجد منعمی نے اتوار کے روز بتایا کہ مغربی ایرانی شہر بروجرد میں ایک ہائی اسکول میں 50 لڑکیوں کو پھر زہر دیا گیا ہے۔
نوعمر طالبات بھی حکومت مخالف مظاہروں میں شامل
ایرانی خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق 14فروری کو طالبات کے سرپرست قم شہر کی انتظامیہ کے دفتر کے باہر جمع ہوگئے اور انہوں نے حکام سے اس واقعے کی وضاحت کا مطالبہ کیا۔
اس کے دوسرے روز حکومت کے ترجمان علی بہادری جہرومی نے کہا کہ وزارت انٹیلیجینس اور وزارت تعلیم زہر دینے کے اسباب کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
گزشتہ ہفتے پروسیکیوٹر جنرل محمد جعفر منتظری نے ان واقعات کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
ایران کی ’’اخلاقی پولیس‘‘ کا پس منظر
طالبات کو زہر دینے کا یہ سلسلہ دسمبر میں مذہبی شہرقم میں شروع ہوا تھا اور متعدد دیگر شہروں میں پھیل گیا۔
زہر دینے کے یہ واقعات ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب 16 ستمبر کو ایک ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کی حراست میں موت کے بعد سے ملک بھر میں جاری حکومت مخالف مظاہرے ابھی تک ختم نہیں ہوئے ہیں۔ ان مظاہروں میں نو عمر طالبات نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور احتجاج کے طور پر اپنے حجاب اتار دیے تھے۔
ج ا / ع آ (اے ایف پی، ایجنسیاں)