لڑکیوں کا ختنہ: بھارتی مسلم بوہرہ کمیونٹی میں وجہ تنازعہ
2 اگست 2016جب بلقیس اپنی بیٹی کے ختنے کے حوالے سے بات کرتی ہے تو اس کے چہرے سے کرب اور پچھتاوا جھلکتا ہے۔ تاہم ختنہ کرنے والی ڈاکٹر کا اس عمل کا دفاع کرتے ہوئے کہنا یہ ہے کہ’’ ایک چھوٹا سا چیرا ہی تو لگانا ہوتا ہے، اس میں کوئی نقصان نہیں ہے۔‘‘
بلقیس کا تعلق بھارت میں شیعہ مسلمانوں کے ایک مخصوص مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی بوہرہ برادری سے ہے۔ انہیں اپنی بیٹی کو اس تکلیف دہ عمل سے گزارنے پر ندامت ضرور ہے جسے اقوام متحدہ کی طرف سے لڑکیوں کے حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جا چُکا ہے تاہم ان کا کہنا تھا،’’یہ کچھ بھی نہیں ہے، نہ ہی اس معمولی سرجری سے کچھ تبدیل ہوتا ہے۔‘‘ بلقیس، جنہوں نے اپنا اصل نام نہیں بتایا بلکہ اس فرضی نام سے اس بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’ مجھے اس بارے میں یقین ہے کہ اس سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ اگر اب میری کوئی بیٹی ہوتی تو میں کبھی اس کا ختنہ نہ کرواتی۔‘‘ بلقیس کے ذہن اور داؤدی بوہرہ کمیونٹی کے مابین چلتی یہ کشمکش اس بحث کو بڑھاوا دے رہی ہے جس میں اس روایت کو ختم کرنے کے معاملے پر بات کی جا سکے۔ لیکن در اصل یہ بہت مشکل کام ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا دو سوملین لڑکیوں اور خواتین کے ختنے کی طرز کے آپریشن کیے جا چکے ہیں۔ یہ تعداد سن 2014 کے مقابلے میں ستر ملین زیادہ ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایسے آپریشنز کیے جانے کی اطلاعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ آبادی میں اضافے کے باعث ختنے سے متاثرہ بچیوں اور خواتین کی تعداد میں آئندہ پندرہ سالوں میں نمایاں اضافہ ہو گا۔ رواں برس فروری میں شائع ہوئے طبی جریدے ’جرنل آف میڈیکل ایتھکس‘ میں ماہرین نے بچیوں کے اعضائے تناسل کے ایسے چھوٹے آپریشنز کرنے کی اجازت دینے کی تجویز پیش کی تھی جن سے مذہبی اور ثقافتی روایات کی پاسداری بھی ہو جائے اور بچیوں کی صحت کو نقصان بھی نہ پہنچے۔ لیکن معمولی چیرا لگا کر ختنہ کرنے کا یہ عمل بھارت کی بوہرہ کمیونٹی میں پہلے سے رائج ہے اور انتہائی متنازعہ ثابت ہو رہا ہے۔ بوہرہ کمیونٹی میں خواتین کے ختنے کے خلاف آواز بلند کرنے والی معصومہ رنالوی کہتی ہیں،’’ ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ معمولی سا کٹ ہے لیکن ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں جب یہ معمولی سا کٹ بہت خطرناک ثابت ہوا ہے۔‘‘
معصومہ رنالوی اپنی کمیونٹی میں اس فرسودہ روایت پر پابندی عائد کرنے کی غرض سے گزشتہ برس کئی آن لائن درخواستیں دائر کر چکی ہیں۔ رنالوی کو آج بھی یاد ہے کہ جب وہ سات برس کی تھیں تو ان کی دادی نے ان سے آئس کریم اور ٹافی دلانے کا وعدہ کیا ۔ لیکن وعدہ پورا کرنے کی بجائے انہیں ایک گھر کے پچھلی طرف بنے ایک کمرے میں لے جایا گیا اور پھر انہیں زبردستی جکڑ کر اس تکلیف دہ عمل سے گزارا گیا۔ رنالوی اس ناقابل برداشت درد کو کبھی نہیں بھول سکیں۔ وہ سارا راستہ روتے ہوئے گھر واپس آئیں تھیں۔ جب انہوں نے تیس برس کی عمر میں لڑکیوں کے ختنے کے بارے میں پڑھا تو انہیں پتہ چلا کہ سات سال کی عمر میں ان کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ بھارت میں ’داودی بوہرا‘ متمول تاجر مسلم کمیونٹی ہے. قریب 10 لاکھ بوہرا افراد ممبئی اور آس پاس کے علاقوں میں رہتے ہیں تاہم ان کی کمیونٹی امریکا اور یورپ میں بھی آباد ہے۔ یوں تو یہ کمیونٹی خواتین کی تعلیم کے حوالے سے خاصی آزاد خیال جانی جاتی ہے لیکن کمیونٹی پرمرد علمائے دین کا مکمل کنٹرول ہے۔ ممبئی سے نیو یارک تک طبی ماہرین بوہری لڑکیوں کا ختنہ کرتے ہیں جس میں بوہروں کے مذہبی رہنما ’سیدنا‘ کی دعائیں لی جاتی ہیں۔
امریکا میں مقیم ایک چونتیس سالہ سماجی کارکن خاتون الیفیہ کو یاد ہے کہ ان کا ختنہ ان کی دادی کی بہن نے نیویارک کی ایک بیسمنٹ میں کیا تھا۔ الیفیہ نے اپنا اصل نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ ایک عجیب اور تکلیف دہ عمل تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا،’’ یہ سب کچھ قابل نفرت اور خوفناک ہے۔ فطری جذبات کو ہمارے سامنے نا مناسب اور ناگوار بنا دیا جاتا ہے اور جنس کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں احساس جرم بھر دیا جاتا ہے۔‘‘ بچیوں کے ختنے کے تنازعے کو استعمال کرتے ہوئے ممبئی میں بوہریوں کے سابق مذہبی رہنماء ’سیدنا‘ کے بیٹے اور سوتیلے بھائی جانشینی کے حوالے سے آپس میں جھگڑ رہے ہیں۔ ’سیدنا‘ کے سوتیلے بھائی کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کے ختنے کی روایت کو ختم ہونا چاہئے جبکہ اُن کے بیٹے کا موقف ہے کہ یہ روایت جاری رہنی چاہیے کیونکہ لڑکوں کے ختنے کا موازنہ لڑکیوں کے ختنوں سے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس جراحی کے اثرات لڑکوں کی صحت پر لڑکیوں کی صحت کے مقابلے میں کہیں مختلف ہوتے ہیں۔