لیبیا آپریشن: برلن میں نیٹو وزرائے خارجہ کا اہم اجلاس
14 اپریل 2011نیٹو کے دو اہم ملک رکن، برطانیہ اور فرانس دیگر رکن ریاستوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ مزید جنگی طیارے فراہم کرکے فوجی کارروائی میں شدت پیدا کریں۔ نیٹو میں کلیدی اہمیت کے حامل ملک جرمنی نے شروع ہی سے لیبیا مشن کے لیے براہ راست فوجی معاونت فراہم کرنے سے معذرت کر رکھی ہے۔
جرمن وزیر خارجہ ویسٹر ویلے نے البتہ برلن منعقدہ اجلاس میں ایک بار پھر واضح کیا کہ نیٹو لیبیا کے عوام کی خواہشات کا احترام کرتا ہے۔ ویسٹر ویلے کے بقول، ''ہم مشترکہ مقصد کے لیے متحد ہیں، ہم ایک آزاد اور جمہوری لیبیا چاہتے ہیں۔ آمر قذافی جس نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف خانہ جنگی شروع کر کھی ہے، اسے اب جانا ہوگا۔'' ویسٹرویلے کا کہنا ہے کہ اتحادیوں کے ساتھ اس مشترکہ مفاد کے حصول کی راہ میں اختلافات بھی موجود ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اس اجلاس سے قبل میزبان چانسلر انگیلا میرکل سے مختصر ملاقات کی۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ان کا ملک اس وقت تک اتحادیوں کو معاونت فراہم کرتا رہے گا، جب تک اپنی مکمل ذمہ داریاں پوری نہیں کردیتا۔ نیٹو کے 28 میں سے چھ رکن ممالک کی فوجیں قذافی کی فورسز کے خلاف فضائی کارروائی کر رہی ہیں۔ یہ امر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بعض نیٹو ممالک زیادہ گرمجوشی سے اس مشن کی حمایت نہیں کر رہے۔
ڈینش وزیر خارجہ Lene Espersen نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی فضائی طاقت کو اس ضمن میں کام میں لائیں۔ بمباری کے آپریشن میں شریک ایک اور ملک ناروے نے بھی اسی نکتے کی جانب نشاندہی کی ہے۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن نے برلن منعقدہ کانفرنس میں تسلیم کیا کہ لیبیا کے تنازعے کو محض عسکری طاقت کے ذریعے حل نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے بقول اب سیاسی عمل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
راسموسن نے قطر منعقدہ اجلاس میں باغیوں کو نقد رقوم اور دیگر وسائل فراہم کرنےکو درست سمت میں ایک اہم قدم قرار دیا۔یاد رہے کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے 19 مارچ کو لیبیا میں قذافی مخالف فضائی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت: مقبول ملک