لیبیا میں استحکام کی خاطر غیر ملکی فوجی مداخلت پر غور
28 جنوری 2016جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اٹلی کی خاتون وزیر دفاع رابرٹا پنوٹی کے حوالے سے بتایا ہے کہ لیبیا میں استحکام کے لیے مختلف ممکنات پر غور جاری ہے، جس میں یہ آپشن بھی زیر بحث ہے کہ وہاں قیام امن اور حکومتی رِٹ کی بحالی کی خاطر مقامی جنگجوؤں کے خلاف عسکری کارروائی کی جائے۔
رابرٹا پنوٹی نے جمعرات اٹھائیس جنوری کو دیے گئے ایک اںٹرویو میں کہا کہ لیبیا میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے عالمی برداری کوشش میں ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے روم حکومت امریکا، برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر وہاں عسکری مداخلت کو خارج ازامکان قرار نہیں دے رہی ہے۔
سن 2011 میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی طرف سے قذافی حکومت کے خاتمے اور معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد سے لیبیا میں طوائف الملوکی کی کیفیت ہے۔ وہاں نہ صرف دو متوازی حکومتیں قائم ہیں بلکہ سیاسی خلاء کے باعث انتہا پسند گروپ داعش، لیبیا میں قدم جمانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔
گزشتہ برس دسمبر میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں لیبیا میں متحدہ حکومت سازی کے لیے ایک ڈیل منظور کی گئی تھی۔ لیکن ایسے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ اس منصوبے کے عملدرآمد میں شدید مشکلات درپیش آ سکتی ہیں۔
ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے پنوٹی نے کہا کہ لیبیا میں سیاسی تعطل اور شورش کو مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ گزشتہ ماہ کے دوران اٹلی نے اس مقصد کے لیے لندن، واشنگٹن اور پیرس حکومتوں کے ساتھ مشاورتی عمل میں تیزی پیدا کر دی ہے۔ یہ بیان دیتے ہوئے ان کا حوالہ لیبیا میں ممکنہ عسکری مداخلت کی طرف تھا۔
پنوٹی نے البتہ یہ بھی کہا، ’’ہم میں یہ اتفاق رائے ہے کہ کسی بھی ایسے بے ربط ایکشن سے گریز کیا جائے، جو ماضی میں اچھے نتائج نہیں لا سکا تھا۔‘‘ انہوں نے زور دیا کہ لیبیا میں کوئی بھی عسکری کارروائی اسی وقت کی جائے گی، جب وہاں کی حکومت کی طرف سے باقاعدہ درخواست کی جائے گی۔
خاتون وزیر پنوٹی کا یہ بھی کہنا تھا کہ لیبیا میں عسکری کارروائی سے قبل لیبیا کا بھرپور اعتماد حاصل کرنا، اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ جہادیوں کے شدت پسند پراپیگنڈے کو تقویت نہ مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ جہادی گروہ خود پر کسی بیرونی حملے کو لیبیا پر حملہ بھی قرار دے سکتے ہیں، اس لیے اس معاملے میں احتیاط ضروری ہے۔