لیبیا میں ترک فوجی بھیجیں گے، ایردوآن
26 دسمبر 2019ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے انقرہ میں ایک خطاب کے دوران کہا ہے کہ وہ لیبیا میں ترک فوجیوں کی تعیناتی کے لیے جلد از جلد پارلیمان میں ایک قرارداد پیش کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ قرارداد سات جنوری کو پیش کر سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ترک فوجیوں کی تعیناتی کی درخواست طرابلس میں قائم 'گورنمنٹ آف نیشنل ایکارڈ‘ (جی این اے) کی درخواست پر بھیج رہے ہیں، ''اگر اللہ نے چاہا تو ہم آٹھ یا نو جنوری کو اس دعوت نامے کا جواب دے دیں گے۔‘‘ ترک صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ترک پارلیمان نے گزشتہ ہفتے کے روز ہی طرابلس کی فائز السراج حکومت کے ساتھ سکیورٹی اور فوجی تعاون کے ایک معاہدے کی توثیق کی ہے۔ لیکن ترک فوجیوں کو لیبیا میں اتارنے کے لیے ایک الگ قرارداد کی منظوری ضروری ہے۔
ترک صدر نے بدھ کے روز تیونس کا ایک غیراعلانیہ دورہ بھی کیا تھا اور ان کے ہمراہ ترک وزیر دفاع اور خفیہ ایجنسی کے سربراہ بھی تھے۔ اس دورے کا مقصد لیبیا میں جنگ بندی کا کوئی معاہدہ کرنے کے حوالے سے مذاکرات کرنا تھا۔
لیبیا کی لڑائی میں کون کون شریک؟
لیبیا سن 2011 سے بدامنی اور افراتفری کا شکار ہے۔ اُس وقت نیٹو کی حمایت سے معمر قذافی کی حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں قتل کر دیا گیا تھا۔ سن 2014 سے لیبیا مشرقی اور مغربی انتظامیہ میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ترک اور اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ جی این اے شمال مغربی شہر طرابلس میں برسر اقتدار ہے لیکن مشرق میں ملٹری کمانڈر خلیفہ حفتر نے لیبین نیشنل آرمی (ایل این اے) کے نام سے اپنی متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے۔
اپریل کے آواخر سے جنرل حفتر نے طرابلس کی جی این اے حکومت کے خلاف چڑھائی کر رکھی ہے۔ خلیفہ حفتر کے مطابق یہ جہادی عناصر کو مدد فراہم کر رہی ہے۔ طرابلس حکومت کو خطرہ ہے کہ خلیفہ حفتر طرابلس پر قبضہ کر سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فائز السراج نے ترکی سے اپنی فوج بھیجنے کی درخواست کی ہے۔
ترکی کے ساتھ ساتھ اس کے قطر جیسے اتحادی ممالک طرابلس حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، روس، مصر اور کسی حد تک فرانس خلیفہ حفتر کی حمایت میں ہیں۔
ا ا / ع ح (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)