لیبیا کا مسلح تنازعہ اور روسی حکمت عملی
11 اپریل 2019روسی حکومت کے ترجمان نے چند روز قبل واضح کیا تھا کہ ماسکو ہر ممکن کوشش کرے گا کہ لیبیا کے متحارب فریقین کو شدید خون خرابے سے روکا جا سکے کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس سے عام شہریوں کی ہلاکت ہو گی۔ اسی دوران روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے مصری دورے کے موقع پر کہا کہ روس لیبیا کی عوام کی مدد کرے گا کہ وہ اپنے اختلافات کو ختم کر کے مصالحتی عمل سے مستحکم سمجھوتے کو تشکیل دیں۔
رواں مہینے کے اوائل سے لیبیا کی داخلی صورت حال خراب سے خراب تر ہونے لگی تھی اور اسی دوران مشرقی شہر بن غازی کے جنگی سردار خلیفہ حفتر نے ملکی دارالحکومت طرابلس پر چڑھائی کا اعلان کر دیا۔ اُن کی لیبین نیشنل آرمی اس وقت طرابلس کے نواح تک پہنچ چکی ہے۔ طرابلس ہی میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت قائم ہے اور اس کے وزیراعظم فائز سراج ہیں۔
ایک روسی سفارت کار وائچیسلاو ماتوزوف کا خیال ہے کہ لیبیا کے حالات روس کے لیے ایک انتہائی نازک صورت حال ہے اور مشکل یہ ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرے۔ ماتوزوف کا استدلال ہے کہ روس کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ لیبیا کا اندرونی مسلح خلفشار جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے لیے ایک نیا میدان بن سکتا ہے اور یہ مسلح تنازعے کو انتہائی شدید کر دے گی۔
روس خاص طور پر لیبیا کے موجودہ صورت حال پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ بعض بین الاقوامی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ملک ماسکو حکومت کا اگلا شام ہو سکتا ہے۔ روس کے مختلف اتحادی لیبیا کے حوالے سے مختلف سوچ رکھتے ہیں۔ روسی اتحادی ممالک ترکی اور الجزائر واضح طور پر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ وزیراعظم فائر السراج کی حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔
دوسری جانب مصر اور سعودی عرب جنگی سردار خلیفہ حفتر کے حامی ہیں۔ یہ ایسی صورت حال ہے کہ ماسکو حکومت کے لیے کوئی فیصلہ کرنا قدرے مشکل ہو رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مصر اور الجزائر روسی ہتھیاروں کے اہم خریدار ہیں۔ ترکی بھی روس کا ایک اہم اتحادی ملک بن چکا ہے اور شام کے تنازعے پر یہ اکھٹے ہیں۔