140411 Libyen 3 Rebellen
14 اپریل 2011لیبیا میں معمر قذافی کے خلاف بغاوت شروع ہونے کے کچھ دنوں بعد ہی باغیوں نے اپنی ایک عبوری کونسل تشکیل دے دی تھی۔ باغیوں کی نمائندہ اس تنظیم کوسب سے پہلے تسیلم کرنے والا ملک فرانس تھا۔ اس کے بعد کئی دیگر ممالک نے بھی ایسا ہی کیا۔ تاہم سوال یہ ہےکہ لیبیا میں عالمی برادری کی طرف سے جن لوگوں کے ساتھ مذاکرات کیے جا رہے ہیں، وہ کون ہیں؟
لیبیا میں باغیوں کی عبوری کونسل کے نائب صدر عبدالحفیظ روشہ کے خیال میں آج کے باغی لیبیا کے مستقبل کے حوالے سے تمام فیصلے خود کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ ہماری ریاست ہمارے تصور، ہمارے اصولوں اور سترہ فروری کوآنے والے انقلاب کی ترجمان ہوگی۔ قذافی کے جانے کے بعد کوئی بھی ہم پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتا‘‘۔
عبدالحفیظ روشہ بیرون ملک لیبیا کی سیاست کے ایک ترجمان کے طور پربھی دیکھے جا رہے ہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ وہ بن غازی میں شہری حقوق کے لیے بھی سرگرم رہے ہیں اور شروع ہی سے باغیوں کی عبوری کونسل سے منسلک ہیں۔ ساتھ ہی وہ اس کونسل کے سربراہ مصطفٰی عبدالجلیل کے ترجمان بھی ہیں۔ مصطفٰی عبدالجلیل قذافی انتظامیہ میں وزیر انصاف بھی رہے ہیں۔ عبوری کونسل کی کوشش ہے کہ باغیوں کے زیر اثر علاقوں میں معمولات زندگی پہلے ہی کی طرح چلتے رہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ شہری اپنے آپ کو محفوظ محسوس کریں، پولیس کا نظام بھی فعال رہے اور قذافی کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو کوئی پریشانی بھی نہ ہو۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کی نظروں میں لیبیا کے باغیوں کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ دو ہفتے قبل لیبیا ہی کے موضوع پر لندن میں ہونے والی ایک کانفرنس میں کونسل کے رکن جمعہ الجماعتی نے واضح کر دیا تھا کہ وہ کوئی نیا نظام نہیں لانا چاہتے۔’’ یہ ایک عبوری دور ہے۔ ہم لیبیا کی مستقل حکومت نہیں ہیں۔ ہم اُس وقت تک حکومت میں رہیں گے، جب تک لیبیا کا نیا آئین نافذ العمل نہیں ہو جاتا‘‘۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے بھی باغیوں کی مدد کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس سے قبل باغی اسی بات پر ناراض تھے کہ نیٹو کی جانب سے ان کے ساتھ تعاون نہ ہونے کے برابر تھا۔ باغیوں کے عبوری کونسل کے بقول عالمی برادری کے بھرپور تعاون کے ساتھ یہ کونسل اپنی وہ منزل حاصل کرسکتی ہے، جس میں معمر قذافی کا کہیں نام و نشان نہیں ہو گا یعنی ایک ’ آزاد اور متحد لیبیا ‘۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: مقبول ملک