لیبیا کے حالات پر یورپی یونین کی تشویش
19 مئی 2014دارالحکومت طرابلس کے مختلف علاقوں میں گزشتہ رات گئے تک جھڑپیں جاری رہیں۔ خاص طور پر شہر کے جنوبی حصے میں، جہاں دو متحارف گروہ ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
اس دوران ایک ٹیلی وژن سینٹر پر بھی چار راکٹ داغے گئے تاہم اس حملے میں صرف مالی نقصان ہوا۔ اب تک اس ہنگامہ آرائی میں دو افراد ہلاک اور پچاس سے زائد زخمی ہو چکے ہيں۔ دوسری جانب ملک کی عبوری پارلیمان پر حملے کے بعد کرنل مختار فرنانا نے کہا ہے کہ پارلیمان پرحملہ بغاوت نہیںتھا بلکہ یہ کارروائی لوگوں کی خواہش پر کی گئی تھی۔ ’’ہم اعلان کرتے ہیں کہ عبوری پارلیمان کی تمام تر سرگرمیوں کو معطّل کر دیا گیا ہے۔ آئین ساز اسمبلی نئے پارلیمانی انتخابات تک حکومتی ذمہ داریاں سنبھالے گی۔‘‘ جنرل مختار فرنانا خود کو ملکی فوج اور ملکی انقلاب میں اہم کردار ادا کرنے والے اتحادی ملیشیا گروپس کا ترجمان کہتے ہیں۔
دوسری جانب پارلیمان کے اسپیکر نوری ابوسہمین نے اسے جنرل خلیفہ ہِفتر کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ جنرل ہفتر نے گزشتہ روز صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ بن غازی اور طرابلس میں کی جانے والی کارروائیاں ملک کے خلاف نہیں تھیں۔ ’’ہمیں عوام نے اس کی اجازت دی تھی۔ ہم صرف عوامی خواہشات کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ عوام نے نیشنل گانگریس سے ان کا مینڈیٹ واپس لے لیا ہے۔‘‘
یورپی یونین نے مسلح گروپوں کی جانب سے لیبیا کی پارلیمان اور ملک کے مشرقی حصے میں فضائیہ کی ایک چھاؤنی پر کیے جانے والے حملوں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یورپی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے بیان میں کہا گیا کہ لیبیا میں جاری تشدد کا سلسلہ باعث پریشانی ہے۔ اس دوران تنازعے کے تمام فریقین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ معاملات کو اتفاق رائے سے حل کرتے ہوئے جمہوریت کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں۔
اس دوران سعودی عرب نے طرابلس میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا ہے۔ سعودی حکام کے مطابق لیبیا میں سلامتی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے اور سفارتی عملے کو فوری طور پر لیبیا چھوڑنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔
2011ء میں معمر قذافی کی معذولی کے بعد سے لیبیا میں قائم ہونے والی مختلف حکومتیں قانون کی بالادستی قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہيں۔ دوسری جانب بھاری اسلحے سے لیس مختلف گروپس متعدد علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔