لیبیا کے حوالے سے جرمنی میں ایک اور امن کانفرنس
2 جون 2021جرمن وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جرمنی اور اقوام متحدہ نے لیبیا میں امن کے قیام کے لیے مشترکہ طور پر رواں ماہ کی 23 تاریخ کوایک اور کانفرنس کی میزبانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ برلن میں اس طرح کی چوٹی کانفرنس کا آغاز گزشتہ برس ہوا تھا اور یہ پہلا موقع ہو گا جب اس میں لیبیا کی عبوری قومی حکومت بھی شریک ہو گی۔
جرمن وزارت خارجہ نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا، ''عالمی برادری لیبیا میں اقوام متحدہ کے زیر قیادت امن عمل کی اپنی قریبی اور تعمیری حمایت جاری رکھنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔''
ایجنڈے میں کیا ہے؟
جرمن وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق کانفرنس کے شرکاء، ''ملک میں پائیدار امن و استحکام کے لیے مستقبل کے ضروری اقدامات کے بارے میں '' غور و فکر کریں گے۔ اس بات چیت میں ملک میں ہونے والے عام انتخابات پر خاص توجہ دی جائے گی جس کے لیے 24 دسمبر کی تاریخ مقرر ہے۔
اس کے ساتھ ہی اس سربراہی کانفرنس میں بیرونی فورسز اور جنگجوؤں کے لیبیا سے انخلا کے بارے میں بات چیت ہو گی۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق لیبیا میں اب بھی بیس ہزار سے زیادہ بیرونی فورسز اور جنگجو موجود ہیں۔ اس میں ترکی، روس، سوڈان اور چاڈ جیسے ممالک کے فورسز اور جنگجو شامل ہیں۔ کانفرنس میں لیبیا کے اندر ایک متحدہ سکیورٹی فورسز کے قیام پر بھی اہم بحث ہوگی۔
حالات یہاں تک کیسے پہنچے؟
لیبیا سن 2011 میں ڈکٹیٹر معمر قذافی کے زوال کے بعد سے ہی داخلی بحران کا شکار ہے اوراقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ ایک طرف اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں طرابلس میں قائم تھی تو دوسری جانب خلیفہ حفتر جو، 'لیبیئن نیشنل آرمی' کے کمانڈر ہیں ان کی ملیشیا کا مشرقی علاقے پر قبضہ رہا ہے۔
ان رقابتوں کے اختتام اور اتحاد کے مقصد سے جرمنی نے جنوری 2020 میں برلن میں امن کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں وزیر اعظم فائز السراج اور ان کے حریف خلیفہ حفتر دونوں موجود تھے تاہم دونوں نے ایک دوسرے سے ملاقات تک نہیں کی تھی۔
اس کانفرنس میں امریکا، روس، چین، برطانیہ، اٹلی، فرانس، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے سفارت کار اور مندوبین بھی شامل ہوئے تھے۔ کانفرنس میں، رہنماؤں نے تنازعے میں تمام طرح کی غیر ملکی مداخلت کو ختم کرنے اور ہتھیاروں کی پابندی کو برقرار رکھنے کا عہد کیا تھا۔
گزشتہ اکتوبر میں فریقین کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے بعد ایک عبوری قومی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ اس حکومت پر لیبیا کے منقسم اداروں کو متحد کرنے، تعمیر نو کی کوششوں کا آغاز کرنے اور دسمبر میں ہونے والے عام انتخابات کی تیاریاں کرنے جیسی ذمہ داریاں عائد ہیں۔
لیکن لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے سفیر جان کوبس نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ غیر ملکی فوجیوں کی واپسی اور ملک کے مشرق اور مغرب کو ملانے والی سڑکوں کو دوبارہ کھولنے جیسے معاملات پر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)