لیبیا کے وزیراعظم برطرف، پارلیمنٹ کا فیصلہ
12 مارچ 2014منگل کے روزلیبیا کی پارلیمنٹ جنرل نیشنل کانگریس میں وزیراعظم علی زیدان کو منصب سے فارغ کرنے کی قرارداد پیش کی گئی اور اِس کے حق میں پارلیمنٹ کے 194 ارکان نے ووٹ ڈالا او مخالفت میں 124 ووٹ ڈالے گئے۔ اس طرح علی زیدان منصبِ وزارت عظمیٰ سے برطرف کر دیے گئے۔ لیبیا کے وزیر اعظم کو ہٹانے کی قرارداد یا عدم اعتماد کی تحریک کے لیے پارلیمنٹ کی کل نشستوں میں سے سادہ اکثریت درکار ہو تی ہے، علی زیدان کے خلاف منظور کی جانے والی قرارداد کو چار ووٹ زیادہ ملے۔
پارلیمنٹ نے نئے وزیراعظم کے انتخاب تک وزیر دفاع عبداللہ الثانی کو عبوری وزیراعظم مقرر کر دیا ہے۔ نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے جنرل نیشنل کانگریس کے پاس دو ہفتوں کا وقت ہے۔ لیبیا میں معمر القذافی کے زوال کے بعد ہونے والے پہلے عام انتخابات کے نتیجے میں آزاد رکن علی زیدان کو وزیراعظم مقرر کیا گیا تھا اور اس میں لبرل امیدواروں کا عمل دخل تھا۔ اپنے وزارت عظمیٰ کے دور میں علی زیدان حکومتی اختیار قائم کرنے میں بظاہر ناکام دکھائی دیے۔ گزشتہ برس کچھ گھنٹوں کے لیے ایک باغی ملیشیا نے وزیراعظم کو اغوا بھی کر لیا تھا۔ وہ نومبر سن 2012 میں وزیراعظم بنے تھے۔ منگل کے روز پارلیمنٹ میں رائے شماری سے قبل زیدان نے اراکین کو خبردار کیا تھا کہ اگر اُن کو فارغ کر دیا گیا تو لیبیا میں افراتفری اور قانون کی حکمرانی مکمل طور پر مفقود ہو جائے گی۔
منگل کے روز علی زیدان کو برطرف کرنے کی وجہ شمالی کوریا کے ایک تیل بردار ٹینکر پر باغیوں کے قبضے میں آئی ہوئی السِدرا بندرگاہ سے خام تیل لے کر فوج کے نرغے سے باہر نکل جانا بنا۔ ٹینکر کو روکنے کے لیے وزیر اعظم کے حکم پر نیوی کے جہاز بھی تعینات تھے لیکن پھر بھی شمالی کوریائی ٹینکر کھلے سمندر میں پہنچ جانے میں کامیاب ہو گیا۔ ٹینکر ’مارننگ گلوری‘ ہفتے کے روز السِدرا کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا تھا۔ اس ٹینکر پر باغیوں کے توسط سے دو لاکھ 34 ہزار بیرل تیل لادا گیا۔ اُدھر السِدرا کے آئل ٹرمینل سے ٹینکر کے تیل لے کر کامیابی سے نکل جانے پر امریکا نے تشویش کا بھی اظہار کیا ہے۔
زیدان حکومت نے باغیوں کی جانب سے تیل کی ترسیل پر فوجی ایکشن کرنے کا انتباہ بھی جاری کیا تھا لیکن اُس پر عمل نہیں کیا جا سکا۔ السدرا کی بندرگاہ اِس وقت باغیوں کے خود ساختہ خود مختار علاقے میں واقع ہے۔ تیل کی غیرقانونی فروخت کے لیے باغیوں نے نیشنل آئل کوآپریشن نامی قومی ادارے سے اجازت بھی نہیں حاصل کی تھی۔ اطلاعات کے مطابق لیبیا کی بحریہ کی چھوٹی گشتی کشتیاں خراب موسم کی وجہ سے اِس انتہائی بڑے تیل ٹینکر کو بحیرہ روم کی بین الاقوامی حدود میں داخل ہونے سے روک نہیں پائیں۔
لیبیا کی حکومت اور مشرقی باغیوں کے درمیان جاری اختلافی معاملات کی وجہ سے لیبیا کی تیل کی ایکسپورٹ بھی کم ہو گئی ہیں۔ مشرقی حصے کے باغیوں نے تیل ٹرمینل پر گزشتہ برس جولائی میں قبضہ کیا تھا۔ باغی لیبیا کے مشرقی علاقے برقہ کی خود مختاری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ برقہ کا علاقہ سن 1951 میں لیبیا کی آزادی کے بعد بارہ برس تک خود مختار رہا تھا۔