ماحولیاتی کانفرنس، غریب ممالک کی ترقی یافتہ ممالک پر تنقید
9 نومبر 2022دو ہفتے پر محیط اقوام متحدہ کی یہ بین الاقوامی کانفرنس مصر کے تفریحی شہر شرم الشیخ میں جاری ہے۔ سینیگال کے صدر میکی سال نے مندوبین کو بتایا کہ ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے امیر ممالک کی جانب سے فنڈز میں اضافے کی ضرورت ہے۔
سری لنکن صدر نے کہا مغربی حکومتوں کے پاس یوکرین جنگ کے لیے تو فنڈز ہیں لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں وہ سستی دکھا رہی ہیں۔
جنوبی افریقہ کے رہنما سیرل رامافوسا نے امداد فراہم کرنے والے بین الاقوامی ممالک اور اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ الزام عائد کیا کہ غریب ممالک کی ماحول دوست توانائی تک رسائی کو مشکل بنایا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی متعدد افریقی ممالک یہ الزام عائد کر چکے ہیں کہ مغرب ایسی ٹیکنالوجی منتقل کرنے سے گریزاں ہے، جس کے ذریعے ماحول دوست توانائی پیدا کی جا سکتی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیاں، متاثرہ ممالک کو کون ادائیگی کرے گا؟
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق کوئلے پر انحصار کرنے والے ملک جنوبی افریقہ کا شمار دنیا کے سب سے بڑے آلودگی پھیلانے والے ملکوں میں ہوتا ہے۔ اس ملک کو سن 2050ء تک کاربن نیوٹرل ہونے کے لیے کم از کم 500 ارب درکار ہوں گے۔
چین غریب ممالک کی مدد کے لیے تیار
چینی حکومت نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ چینی حکومت کے مندوب ژی ژینہوا نے شرم الشیخ میں کہا کہ تحفظ ماحول کے لیے ان کے ملک کا عالمی کوششوں میں حصہ لینے کا عزم ناقابل شکست ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ عالمی ماحولیاتی تحفظ کو ''سنگین چیلنجز‘‘ کا سامنا ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے ''کثیرالجہتی اور یکجہتی‘‘ کی ضرورت ہے۔
ماحولیاتی تباہی کی ذمہ دار جنگیں، تنازعات اور انسانی ہوس بھی
ماہرین چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو تحفظ ماحول کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ دونوں ہی آب و ہوا کو نقصان پہنچانے والی گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والے سب سے بڑے ممالک ہیں۔
دریں اثناء چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے اُس طریقہ کار کا حصہ بننے کے لیے تیار ہے، جس کے تحت غریب ممالک کی مدد کی جائے گی۔ چینی مندوب کا کہنا تھا کہ وہ غریب ممالک کے ایسے مطالبات کے ساتھ کھڑا ہے، جن میں امیر ممالک سے مالی امداد کرنے کا کہا جا رہا ہے۔
ژی ژینہوا کا مزید کہنا تھا کہ متاثرہ ممالک کی مدد کرنا چین کا فرض تو نہیں ہے لیکن وہ اس حوالے سے ممکنہ فنڈ کے قیام کے لیے تیار ہے۔
ا ا / ک م ( اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)