آج کل فیشن انڈسٹری کسی بھی ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق فیشن انڈسٹری ہر سال جدید فیشن سے ہم آہنگ 100 بلین سے زیادہ لباس بناتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے 40 فیصد نہ بکتا ہے اور نہ کبھی پہنا جاتا ہے البتہ بدلتے فیشن کے ساتھ اس کو ضائع کر دیا جاتا ہے۔ فیشن کے بارے میں سوچتے وقت ہم عام طور پر اس کے انسانوں اور کرہ ارض پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں نہیں سوچتے۔ اگر ہم غور کریں تو تیزی سے بدلتا ہوا فیشن ہماری جیب سے لے کر ہمارے ماحول پر اثر انداز ہوتا ہے۔
آج کل فاسٹ فیشن کی اصطلاح بہت عام ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دنوں میں فیشن کا مکمل طور پر بدل جانا اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آؤٹ آف فیشن ہو جانے والے زیادہ تر کپڑوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے بجائے ضائع کر دیا جاتا ہے۔ اس کی مثال چلی میں موجود ڈمپنگ یارڈ ہے، جہاں دنیا بھر سے ہر سال سمندر کے راستے تقریباً 59000 ٹن کے قریب وہ کپڑے آتے ہیں، جو فیشن بدلنے سے پہلے فروخت نہیں ہو پاتے یا پھر ان کی تیاری کے دوران فیشن بدل جاتا ہے۔ چلی میں کپڑے کا کاروبار کرنے والے بہت سے تاجر ان کپڑوں کو پورٹ سے ہی خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یا پھر ڈمپ ہونے کے بعد ان کپڑوں کو لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک اسمگل کر دیا جاتا ہے۔ پھر بھی ہر سال 39000 ٹن کے قریب ملبوسات کچرے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کینا اور تنزانیہ میں بھی اس قسم کے ڈمپ یارڈز موجود ہیں۔
کیا کبھی آپ نے سوچا ہے ایک ٹی شرٹ بنانے کے لیے 2,700 لیڑ پانی استعمال ہوتا ہے، جو کہ ایک انسان کے لیے تقریباً 2 سال پینے کے کام آ سکتا ہے۔ 215 ٹریلین لیڑ پانی یہ انڈسٹری ہر سال استعمال کرتی ہے اور بدلتی ہوئی موسمی صورت حال پانی کی کم یابی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ فیشن انڈسٹری 2 سے 8 فیصد کاربن گیسز کے اخراج کی ذمہ دار بھی ہے۔ اس کے علاوہ کیمیکلز سے آلودہ پانی کو دریاؤں اور سمندروں میں بہا دیا جاتا ہے، جو آبی حیات کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ یا پھر اس کو کاشت کاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی بالواسطہ طور پر ہم ان کیمیکلز سے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں۔ اس کے اثرات انسانی صحت پر انتہائی برے ہیں۔
دنیا میں پیدا ہونے والی کاٹن بدلتی فیشن کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ اس لیے پولیسٹر سے بھی کپڑا بنایا جاتا ہے۔ پولیسٹر جلدی خراب نہیں ہوتا اس لیے برانڈز کی پہلی توجہ اس کے طرف اسی لیے ہوتی ہے تاکہ لوگ ان کپڑوں کو دیرپا سمجھیں۔
ان تمام مسائل کا حل اس انڈسٹری کو بند کرنا نہیں بلکہ کوئی درمیانی راستہ نکالنا ہے۔ کیونکہ اگر اس کو بند کر دیا جائے گا کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہو جائے گی۔ کلائمیٹ چینج کی بدلتی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہم میں سے بہت سارے لوگ اپنی زندگیوں میں کوئی نہ کوئی تبدیلی لانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ایکو سسٹم کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکے۔
اسی طرح فیشن انڈسٹری میں بھی ہمیں تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے تو یہ رویہ بدلنا ہو گا کہ کسی بھی لباس کو کو ایک کے بجائے بار بار پہنا جائے۔ بہت سے ممالک میں ان کپڑوں کو ری سائیکل بھی کیا جانے لگا ہے تاکہ اس کے ماحولیاتی تبدیلی پر اثرات کم کیے جا سکیں۔ اس میں کپڑوں کو کاٹ کر دوبارہ دھاگوں میں تبدیل کرنا ہے جس سے مختلف اشیاء بنائی جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ فیشن انڈسٹری کو بھی اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ سینتھیٹک یا پولیسٹر سے کپڑے بنانے کے بجائے ایسے میٹیریل سے تیار کیے جائیں، جن کی وجہ سے کپڑوں کو بدلتے فیشن کے ساتھ ڈسپوز کرنا آسان ہو۔ لیکن بد قسمتی سے فیشن انڈسٹری بذات خود ماحولیاتی تبدیلی سے خود کو ہم آہنگ کرتے ہوئے ایسی کسی بات پر متفق نہیں ہو پاتی۔ فی الحال اس صورتحال میں بہتری لانے کی ذمہ داردی فیشن کے دالدادہ ہر شخص پر انفرادی حثیت میں عائد ہوتی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔