ماسکو اور واشنگٹن تخفیف اسلحہ پر متفق
27 مارچ 2010جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے اس نئے معاہدے کی تفصیلات تو پہلے ہی طے کر لی گئیں تھیں تاہم جو باقی بچی تھیں وہ امریکی صدر باراک اوباما اوران کے روسی ہم منصب دیمتری میدویدیف نے ٹیلیفون پر طے کی۔ اپریل کی آٹھ تاریخ کو اس معاہدے پر دونوں ممالک کی جانب سے دستخط کئے جائیں گے اور یہ تقریب یورپی ملک چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ میں منعقد ہوگی۔ مبصرین کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں تخفیف اسلحے کے اس سب سے بڑے معاہدے کا سہرا اوباما کے سر جاتا ہے۔ اوباما کے بقول: ’’اس پورے عمل میں صبر اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا پڑا، ہم نے کبھی بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا‘‘۔
ایک سال قبل پراگ میں ہی صدر اوباما نے دنیا کوجوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی بات کی تھی۔ اس سمجھوتے کے تحت روس اور امریکہ جوہری ہتھیاروں کو ساتھ لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائلوں اورآبدوزوں میں کمی کریں گے۔ اس کے علاوہ ایٹمی وار ہیڈز کو ساڑھے پندرہ سو تک محدود کر دیا گیا ہے جو زمانہء سرد جنگ کےSTART معاہدے کی طے شدہ حد سے بھی کم ہے۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لافروف نے دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے کو تاریخی قرار دیا ہے۔ ان کے بقول :’’ یہ نیا معاہدہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس سے روس اور امریکہ کے مابین اعتماد میں اضافہ ہو گا۔ اس کے علاوہ دیگر ایٹمی طاقتوں اوران ممالک کے باہمی تعلقات میں بھی بہتری آئے گی جن کے پاس جوہری ہتھیارنہیں ہیں‘‘
امریکہ اور روس کے مابین 1991 میں طے پانے والے START معاہدے کی مدت گزشتہ برس دسمبر میں ختم ہو گئی تھی، جس کے بعد سے ایک نئے معاہدے کی کوششیں کی جاری تھیں۔
دنیا بھر کے 90 فیصد جوہری ہتھیار روس اورامریکہ کے پاس ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ سرد جنگ کے بعد اتنی بڑی تعداد میں اسلحےکی ضرورت نہیں رہی ہے۔ ’’ہمیں اپنے ملک اوراپنے ساتھیوں کو اس وقت کے دو بڑے خطروں یعنی جوہری ہتھیاروں کی دوڑ اور دہشت گردی سے محفوظ رکھنےکے لئے اتنی بڑی تعداد میں اسلحے کی ضرورت نہیں ہے‘‘
یہ نیا معاہدہ دس سال کے لئے ہے۔ آٹھ اپریل کو دستخط کے بعد اسے دونوں ملکوں کی پارلیمان کی توثیق کی ضرورت ہوگی۔ نئے معاہدے کو امریکی صدر باراک اوباما کی ایک اور بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔
رپورٹ : عدنان اسحاق
ادارت : شادی خان سیف