ماں کا گینگ ریپ، رکشے سے باہر پھینکی گئی نو ماہ کی بچی ہلاک
6 جون 2017بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے منگل چھ جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ خوفناک جرم بھارت میں خواتین کے خلاف جنسی جرائم کے بہت پریشان کن واقعات کے مسلسل سلسلے کی نئی کڑی ہے۔ اس دوران ایک نوجوان خاتون کو، جس کی عمر انیس بیس سال کے قریب بتائی گئی ہے، ایک چلتے رکشے میں تین افراد نے گینگ ریپ کیا۔
اس جرم کے ارتکاب کے دوران ملزموں نے اس خاتون کی ایک شیر خوار بچی کو، جس کی عمر صرف نو ماہ تھی، چلتے رکشے سے باہر پھینک دیا۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ نئی دہلی کے مضافات میں گڑگاؤں کے علاقے میں قریب ایک ہفتہ قبل انتیس مئی کی رات پیش آیا۔ پولیس نے بتایا کہ خاتون کی شکایت پر ملزمان کے خلاف اجتماعی جنسی زیادتی اور بچی کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
گڑگاؤں کے پولیس کمشنر سندیپ کھیرواڑ نے بتایا، ’’ہم تفتیش کر رہے ہیں، کئی مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ بھی جاری ہے۔ ممکنہ طور پر ملزمان کو جلد ہی گرفتار کر لیا جائے گا۔‘‘ پولیس کمشنر نے اے ایف پی کو بتایا کہ چلتے رکشے سے باہر سڑک پر پھینکی جانے والی نو ماہ کی بچی موقع پر ہی انتقال کر گئی تھی، جس کی وجہ اسے سر پر لگنے والی شدید چوٹیں بنیں۔
پولیس کو درج کرائی گئی رپورٹ کے مطابق یہ خاتون انتیس مئی کو قریب نصف شب کے وقت اپنی شیرخوار بیٹی کے ساتھ گڑگاؤں میں اپنے والدین کے گھر جانا چاہتی تھی۔ پھر جب وہ ایک رکشے میں سوار ہوئی تو اس میں ڈرائیور کے علاوہ پہلے ہی سے دو دیگر مرد بھی سوار تھے۔
ایف آئی آر کے مطابق یہ نوجوان بھارتی خاتون گڑگاؤں میں، جو شمالی ریاست ہریانہ کا حصہ ہے، جیسے ہی بہت ہچکچاتے ہوئے اس رکشے میں سوار ہوئی، تو اس میں موجود مردوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ اس دوران نہ صرف اسے اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا بلکہ چلتے رکشے سے اس کی شیر خوار بیٹی بھی اس سے چھین کر باہر پھینک دی گئی، جس کی لاش بعد ازاں سڑک سے ملی۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ بھارت میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں اور گینگ ریپ کے واقعات انتہائی تشویش ناک حد تک زیادہ ہو چکے ہیں۔ صرف ملکی دارالحکومت نئی دہلی ہی میں 2015ء میں 2200 خواتین کو ریپ کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نئی دہلی میں اوسطاﹰ ہر روز چھ خواتین کو ریپ کر دیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ پورے بھارت میں ہر سال اوسطاﹰ ریپ کے 40 ہزار واقعات رونما ہوتے ہیں اور خاص کر دیہی علاقوں میں تو یہ شرح اس لیے بھی زیادہ ہے کہ وہاں متاثرہ خاتون کے خاندان کی بے عزتی کے خوف سے ایسے ہر جرم کی اطلاع پولیس کو نہیں دی جاتی اور اکثر مظلوم خواتین اپنی شکایت لے کر پولیس کے پاس جانے سے گھبراتی ہیں۔