1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

متحدہ عرب امارات کے مریخ مشن کی روح رواں، سارہ الامیری

20 جولائی 2020

بارہ برس کی عمر میں اینڈرومیڈا کہکشاں کی تصویر دیکھ کر ایک سحر میں مبتلا ہو جانے والی سارہ الامیری متحدہ عرب امارات کے مریخ کی طرف پہلے خلائی مشن کی سربراہی کر رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3fbET
Vereinigte Arabische Emirate 2015 | Sarah Amiri, Mars-Mission
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili

گزشتہ پانچ برسوں میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں زبردست سرمایہ کاری دیکھنے میں آئی ہے۔ سن 2017ء میں متحدہ عرب امارات نے پہلی مرتبہ وزیر برائے مصنوعی ذہانت کا عہدہ متعارف کرایا تھا۔ اس کا مقصد اس خلیجی ریاست کو دیگر عرب ممالک کے مقابلے میں مشینوں کے ذریعے سیکھنے اور سکھانے کی ٹیکنالوجی میں سبقت دلوانا تھا۔ اسی سال نوجوان اماراتی انجینیئر سارہ الامیری کو خلائی شعبے میں ملکی کوششوں کی قیادت کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔

عرب دنیا کی سیارہ مریخ تک پہنچنے کی پہلی کوشش

عرب دنیا کا پہلا خلائی مشن، نوجوانوں کے لیے مشعل

الامیری نے برطانوی سائنسی جریدے نیچر سے رواں ماہ بات چیت میں کہا تھا، ''عالمی سطح پر ہم اس دوڑ میں داخل ہونے والا ایک نیا ملک ہیں۔ ظاہر ہے عام شہریوں کے لیے یہ جیسے کسی پاگل پن کی سی بات تھی۔‘‘

الامیری نے ابتدا میں کمپیوٹر انجینیئر کے بہ طور کام کا آغاز کیا تھا، مگر بعد میں وہ اماراتی انسٹیٹیوٹ برائے ایڈوانسڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں منتقل ہو گئیں۔ یہاں انہوں نے امارات کے پہلے سیٹلائٹ کی تیاری پر کام کیا۔ وہ اس پروجیکٹ کو اپنے خواب کی تعبیر قرار دیتی ہیں۔

دبئی میں ایک 'ٹیڈ ٹاک‘ میں  2017ء میں انہوں نے کہا تھا، ''میں 12 برس کی تھی جب میں نے اینڈرومیڈا کہکشاں کی تصویر دیکھی تھی۔ یہ ہماری کہکشاں ملکی وے کی ہم سایہ کہکشاں ہے۔‘‘ اس تصویر کی وجہ سے ہی سارہ میں فلکیات کے شعبے سے متعلق دلچسپی پیدا ہوئی۔

سن 2016ء میں سارہ الامیری کو اماراتی سائنس کونسل کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا اس وقت وہ امل (عربی لفظ برائے امید) نامی مریخ مشن کی ڈپٹی پروجیکٹ مینیجر ہیں۔

سارہ الامیری کہتی ہیں، ''اس مشن کا نام امید اس لیے ہے کیوں کہ ہم اس کے ذریعے سرخ سیارے سے متعلق عالمی معلومات میں اپنا حصہ ڈال سکیں گے۔ ہم بتا سکیں گے کہ ہمارا خطہ فقط تنازعات ہی سے عبارت نہیں بلکہ سائنسی شعبے میں اپنا مثبت حصہ شامل کرنا بھی ہماری پہچان ہے۔‘‘

اس مشن کی وجہ سے اماراتی سماج پر بھی گہرا اثر پڑا ہے۔ سائنسی جریدے نیچر کے مطابق متحدہ عرب امارات میں یوں تو افرادی قوت کا 28 فیصد خواتین پر مشتمل ہے، تاہم اس مشن میں یہ شرح 34 فیصد ہے۔ متحدہ عرب امارات کی سائنس ٹیم کا 80 فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔ الامیری کا کہنا ہے کہ اس مشن سے اماراتی نوجوانوں کو سائنس، ٹیکنالوجی اور ریاضی جیسے شعبوں کی جانب مائل کرنے میں مدد ملے گی۔

لوئس سینڈرز (ع ت، م م)