متعدد مغربی ملکوں نے اسرائیل کے آبادکاری منصوبے کی مذمت کی
15 فروری 2023جرمنی، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اٹلی نے منگل کے روز ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کی متعدد بستیوں کو سابقہ تاریخ سے اجازت دینے اور قائم بستیوں کے اندر ہزاروں نئے مکانات تعمیر کرنے کے فیصلے کی مذمت کی۔
اسرائیلی حکومت نے اس سے قبل کہا کہ یروشلم میں فلسطینیوں کے حملوں کے بعد وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں 9 بستیوں کو قانونی حیثیت دے گی۔ گزشتہ جمعے کو ایک فلسطینی نے مشرقی یروشلم کے ایک بس اسٹاپ پر اپنی گاڑی سے تین افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک عبادت گاہ کے باہر فائرنگ میں سات افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
اسرائیل یروشلم میں فلسطینیوں کے مکانات کیوں مسمار کر رہا ہے؟
پانچوں مغربی ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ وہ "اسرائیلی حکومت کے اس اعلان سے سخت پریشان ہیں کہ تقریباً 10000مکانات کی یونٹ کو آگے بڑھا رہی ہے اور ان نو چوکیوں کو قانونی قرار دینے کا عمل شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جنہیں ماضی میں اسرائیلی قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔"
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ "ہم ان یک طرفہ اقدامات کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں جو صرف اسرائیلوں اور فلسطینیوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کرنے اور مذاکرات کے ذریعہ دو ریاستی حل کے حصول کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کا کام کریں گے۔ "
امریکہ اور اسرائیل مل کر خطے اور تاریخ کو بدل سکتے ہیں، نیتن یاہو
مغربی ممالک نے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعہ "مشرق وسطیٰ میں جامع، منصفانہ اور دیرپا امن" کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔
پاکستان نے کیا کہا؟
پاکستان نے مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے میں غیر قانونی یہودی بستیوں کو قانونی حیثیت دینے کے اسرائیلی حکومت کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے منگل کے روز اپنے بیان میں کہا کہ "پاکستان مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطین میں نو بستیوں کو قانونی حیثیت دینے کے اسرائیل کے حالیہ فیصلے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ یہ بین الاقوامی قانون اور متعلقہ قراردوں کی واضح اور کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس سے فلسطینی عوام کے حقوق کی مزید خلاف ورزی ہوتی ہے۔"
فلسطین: اسرائیل کا مقبوضہ علاقوں میں مزید مکانات تعمیر کرنے کا منصوبہ
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ "غیر قانونی اور غیر منصفانہ اسرائیلی اقدام کشیدہ صورت حال کو مزید بگاڑ دے گا اور خطے میں امن کے امکانات کو نقصان پہنچائے گا۔"
بیان میں فلسطینی عوام اور فلسطینی کاز کے لیے پاکستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ وہ دو ریاستی حل میں رکاوٹ بننے والے حالات پیدا کرنے سے اسرائیل کو روکیں۔
مغربی تشویش پر اسرائیل اور فلسطینیوں کا ردعمل
اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے منگل کے روز کہا، "نو نئی بستیوں کی تعمیر اچھی ہے لیکن کافی نہیں ہے۔ ہم مزید بستیاں چاہتے ہیں۔"
انتہائی دائیں بازو کے سیاست داں گویر نے مزید کہا، "اسرائیل کی سرزمین اسرائیل کے لوگوں کی ہے۔"
فلسطین تنظیم آزادی (پی ایل او) کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سکریٹری جنرل حسین الشیخ نے مغربی ممالک کے مشترکہ بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔
یورپی یونین اور اسرائیل کی ایک دہائی میں پہلی اعلیٰ سطحی بات چیت
حسین الشیخ نے ٹویٹ کرکے کہا، "ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ الفاظ کو عملی شکل دی جائے، ایک ایسے بین الاقوامی قوت ارادی کی شکل میں جو اسرائیل کو فلسطینی عوام کے خلاف اپنی جارحیت اور اس کے اقدامات کو روکنے پر مجبور کرے۔"
بستیوں کی تعمیر پر تنازع
اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف نے مغربی کنارے میں اسرائیلی بسیتوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیا ہے۔ جرمن حکومت اور متعدد دیگر مغربی ملکوں نے بھی اسرائیل کی آبادکاری کی ان پالیسیوں کی مذمت کی ہے، جو بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں۔
اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ آبادکاری کی حوالے سے منفرد قانونی حالات کو وہ تسلیم نہیں کرتی۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین میں سے چار برطانیہ، فرانس، روس اور چین نے سن 2016 میں ایک قرارداد کے حق میں ووٹ دیے تھے جس میں اسرائیلی آبادکاری کے اقدامات کو "کوئی قانونی جواز نہیں" اور "بین الاقوامی قانون کے تحت صریح خلاف ورزی" قرار دیا گیا ہے۔ امریکہ اس قرارداد پر ووٹنگ سے غیر حاضر رہا تھا۔
اسرائیل کا مقبوضہ بستی پر فوجی اڈہ تعمیر کرنے کا منصوبہ
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ساتھ جنوری میں ایک ملاقات کے دوران امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا، "آبادکاری کی توسیع اور چوکیوں کو قانونی حیثیت دینا ان اقدامات کی دو مثالیں ہیں جو دو ریاستی حل کے حصول کو مشکل بناتی ہیں۔
اس وقت لاکھوں اسرائیلی مقبوضہ مغربی کنارے میں تعمیر کی گئی بستیوں میں مقیم ہیں۔
ج ا / ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)